افغانوں کی ریاست ایک بار پھر بکھرنے کو ہے اور دنیا ساری تماشا دیکھ رہی ہے۔افغان اجڑرہے ہیں۔ خاک وخون میں نہلائے جارہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں مسمار ہونے کو ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں میں جو کچھ تعمیر ہوا وہ بھک سے اڑنے کو ہے۔ تباہی کے راستے پر گامزن افغانوں کو کوئی پہلے روک سکا ہے نہ اب ان کا ہاتھ تھاما جا سکتاہے۔ افسوس! کوئی ایسی دانشمند لیڈرشپ ان کے درمیان موجود نہیں جو اتحاد اور اتفاق کے ساتھ قوم کو یکجاکرسکتی۔ طوفان میں پھنسی کشتی کو کنارے لگا سکتی۔کوئی ایک بھی ادارہ ایسانہیں بنایا جاسکا جو افغان قوم کو ایک لڑی میں پرو سکتاہو۔ کابل پر آج نہیں تو کل طالبان کا پرچم لہرائے گا۔امریکہ، یورپ سمیت عالمی ادارے اپنے دامن جھاڑ کرملک سے نکل چکے ہیں۔سفارت کار بھاگ رہے ہیں۔ خوشحال افغان اپنے خاندانوں سمیت دور دیسوں میں جابسے ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ صدر اشرف غنی بھی بوریا بستر اٹھا کرایران کے آخری شہنشاہ رضا شاہ پہلوی یاآخری افغان بادشاہ ظاہر شاہ کی طرح کئی اور جا کر ڈیرے ڈال دیں گے۔ 350000افراد پر مشتمل افغان فوج عبرت ناک شکست سے دوچار ہوچکی ہے۔ اس کے برعکس نوے کی دہائی میں صدر نجیب اللہ کی فوج نے روسی افواج کے انخلا ء کے بعد ڈھائی برس تک کابل کا دفاع کیا تھا۔ایک سو ارب ڈالر اس فوج کی تربیت پر خرچ ہوا۔چند برس قبل راقم الحروف ایک وفد کے ہمراہ کابل گیا،جہاں افغان حکام نے بتایا کہ افغان فوج کا شمار اب دنیا کی بہتری افواج میں ہوتاہے کیونکہ جو تربیت اور اسلحہ ان کے پاس ہے اس کا خواب بھی اس خطے کی کوئی دوسری فوج نہیں دیکھ سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نادان گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا افغانستان ایک بار پھر نوے کی دہائی کی طرح عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ روس ، چین، بھارت، ایران سب اپنے اپنے حامیوں کو مسلح کرنے کو ہیں۔ خانہ جنگی کا طوفان نہ صرف سراٹھارہاہے بلکہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ دنیا کاکوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اب افغانوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار ہو۔ دنیا کاکوئی ایک بھی ملک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستان یہ بوجھ اٹھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔وہ عالم مغرب کی دشمنی مول نہیں لے سکتا۔ امریکہ اور یورپ کابل پر طالبان کی حکومت کو اپنے منہ پرطمانچے سے کم نہیں سمجھتے۔ وہ کسی بھی صورت میں ایسی حکومت قبول نہیں کریں گے جو زور زبردستی قائم کی جائے گی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہہ چکے ہیں کہ طاقت کے زور پر قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو عالمی برادری تسلیم نہیں کرے گی۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات سے اپنے آ پ کو لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔اگرچہ پاکستان نے سرحدپر دیواریں تان لیں اور غیر قانونی آمد ورفت کو بڑی حد تک روک دیا ہے لیکن اس کے باوجود افغانوں کے امنڈتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنا آسان نہیں ۔نقل مکانی پر مجبور لٹے پٹے افغانوں کو سرحدوں پر مرتے ، عورتوں اور بچوں کو بلکتے دیکھ کر ممکنہ طور پرسارا پاکستان دکھ اور کرب کی کیفیت سے دوچار ہوجائے گا۔ حکومت مخالف عناصر اپنا حساب برابر کرنے کے لیے اپنی ہی ریاست کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔عالمی دنیا طالبان کی کامیابی کو داخلی کامیابی اور اپنی پالیسیوں کی ناکامی کے بجائے پاکستان کے عدم تعاون کا شاخسانہ قراردیتی ہیں۔امریکہ اور مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں کا نزلہ بھی پاکستان پر گرائے جانے کا امکان ہے۔ امریکی سیاستدان،ذرائع ابلاغ اور دیگر ادارے ایک تسلسل کے ساتھ پاکستان کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار قراردیتے ہیں۔وہ پاکستان کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔حسین حقانی کی طرح کے بہت سارے پاکستانی دانشور اور قلمکار بھی اس تاثر کو پختہ کرنے میں مصروف ہیں۔ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ جو پاکستان کا معاشی ناطقہ بند کرانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔عالمی اداروں سے ملنے والی امداد بھی متاثرہوسکتی ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک میں امریکی مرضی منشا کے بنا پتہ بھی نہیں ہلتا۔اہل مغرب غالباً اس ناکامی کا داغ اپنے ماتھے پر سجانے کے لیے کبھی تیار نہ ہوں گے۔ وہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرائیں گے۔ چین کو بھی اس معاملے میں گھسیٹا جارہاہے۔ طالبان کے ساتھ چین کے حالیہ مذاکراتی سلسلے پر بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے کہ وہ محض سنگیانگ میں مداخلت نہ کرنے کی ضمانت پر طالبان کے ساتھ معاملہ کرنے پر راضی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ د وبرسوں میں امریکہ کو مسلسل باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ افغانستان میں سیاسی سمجھوتہ کراکر فوجی انخلا ء کرے لیکن صدر جوبائیڈن سنی ان سنی کرتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان اور قومی سلامتی کے اداروں نے طالبان اور افغان حکومت کے مابین سمجھوتہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن صدر اشرف غنی ہوا میں اڑرہے تھے۔انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ جن پتوں پر انہیں تکیہ ہے وہ جلد ہوا دینے لگیں گے۔پاکستان مخالف سیکورٹی ایجنسیوں نے بھی انہیں غلط فہمی کا شکار کیے رکھا۔ اب صدر اشرف غنی کے پاس مفاہمت اور سیاسی سمجھوتے کا موقع ختم ہوچکا ہے۔کیونکہ سودے بازی کے لیے ان کے ہاتھ خالی ہیں۔کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کی داخلی سیاست اور سماج پر بھی گہرے اور طویل المعیاد اثرات مرتب ہوں گے۔ طالبان کی سیاسی اور مذہبی فکر کے حامی جو جاں بلب ہیں اورسیاسی طور پر بری طرح کمزور ہوچکے ہیں نہ صرف تازہ دم ہوجائیں گے بلکہ پاکستان کے طول وعرض میں انتہا پسند گرو ہ اور انہیں فکری غذا فراہم کرنے والے عناصر بھی سرگرم ہوجائیں گے۔ پاکستان نے غیر معمولی قربانیوں کے بعدانتہاپسندی کا جن قابو کیا ہے اور ان کے سرپرستوں کو لگام دینے میں کامیابی حاصل کی۔خاص طور پرفرقہ پرست اور متشدد گروہوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ وہ ازسر نو اپنے آپ کو منظم کریں گے۔ ایسی صورت حال پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار کرسکتی ہے اور عالمی سطح پر تنہا بھی۔