مذہب،’’مذہبی امور‘‘اور مذہبی شعبوں پر چڑھ دوڑنے کے شوق نے گذشتہ منگل ، ڈاکٹر اشفاق ورک صاحب کو بھی آن لیا ، حالانکہ ’’دینی طبقات ‘‘سے بلاوجہ ’’پنگے بازی‘‘ ...سے سیانے لوگ منع کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب از خود درس وتدریس سے وابستہ اور قدرے مزاحیہ طرزِ نگارش کے حامل ہیں ،اسی بناء پر"روزنامہ 92ـ"کے اس صفحہ پران کا کالم پذیرائی پاتا ---اوراگر اسے پورا نہ بھی پڑھ سکوں تو کم از کم ’’چکھتا‘‘ضرور ہوں ، اس لیے کہ مجھے وثوق ہوتا ہے کہ اُن کے ’’مزاح‘‘میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی سنجیدہ بات ضرور ہوگی ،جو مجھ جیسے طالب علم کے لیے روشنی اورراہنمائی کا باعث ہو ۔’’ادارتی صفحہ ‘‘پہ کرنٹ آفیرز اورحالات حاضرہ کی ترجیح بلکہ دبائو اپنی جگہ ،مگر اس تجزیہ اور تبصرہ میں "Irrelevant"ہوجانا، کہیں زیادہ نقصان دہ ہے ،بجائے اس کے، کہ آپ اپنا اصل رنگ ---وہ جو بھی ہو ---کوقائم ہی نہ رکھ پائیں ۔ اصل میں گذشتہ عرصے میں، جن چیزیں کوہم نے کھویا ان میں اہم ترین وہ ’’ماسٹر محمدحسین‘‘بھی ہے ،جو صرف ڈاکٹر اشفاق ورک کے سکول ہی کا نہیں بلکہ ہر سکول اور علاقے کا سرمایہ تھا ۔ جس نے روکھی سوکھی کھا کے،ذاتی غرض اور منفعت سے بالا تر ہو کراور سراپا خلوص بن کر ، اپنے شاگردوں کو محبت، ایثار ،ایفا ، وفا اور حُبّ الوطنی کے جذبوں سے سرشار کیا ، جس نے ممکن ہے زندگی میں کبھی کسی "ٹریننگ ورکشاپ"سے تو استفادہ نہ کیاہو،مگر اُسے اپنے سٹوڈنٹس کے ذہنوں میں علم کے نقش راسخ کرنے میں مہارت حاصل تھی ۔ مسجد کے وہ مولوی صاحب ،جوگائوں کے ہر گھر کے ـ’’بڑے‘‘اور باہمی الفتوں کو بڑھاوا دینے والے تھے ، وہ ناپید ہوگئے ہیں ، جن کی بات نفرتوں اور تفرقوں سے بالا تر تھی ،جو شاید بڑے بڑے علمی فلسفوں سے تو زیادہ آشنا نہ ہوں ، مگر دلوں میں محبتوں کے بیج کیسے بوئے جاتے ہیں ،اس فن سے خوب آگاہ تھے۔بصورت دیگر ، اکبر الہ آبادی کے بقول: کیا کہیں احباب ، کیا کارِ نمایاں کرگئے بی اے کیا ،نوکر ہوئے ،پنشن ملی اورمر گئے مجھے ڈاکٹر ورک صاحب کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ اس وقت دنیامیں تعلیم سے زیادہ "اخلاقیات"پر زور دیا جاتا ہے ، جدید ادارے امانت ، دیانت اور صداقت کے تصورات کو دین سے الگ کرکے"Ethnics"کے نام پر پڑھانے اور سکھانے پرمُصر ہیں، گویا پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ ذمہ داری مذہبی طبقات کی بجائے اب تعلیمی اداروں پر آن پڑی ہے، اور سوچنے کی بات بھی تویہی ہے کہ وہ ادارے جنہوں نے نسلِ نو کو ان اوصاف سے متصف کرنا تھا ، وہ اس ذمہ داری سے عہد ہ برأہوبھی رہے ہیں یانہیں ---؟ ہمارے سکولوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے---؟ "نئی روشنی "کے نام پر کیا کیا ـ"اندھیرے" پھیل رہے ہیں ۔ ہماری روایات کہاں کہاں اور کس کس طرح پائمال ہو رہی ہیں ، تعلیم کے نام پر مروّج جدت پسندی بلکہ" مغربیت" کے حوالے سے ہم کہاں ،کہاں --- کیا کیا"Compromises"کررہے ہیں ۔بچہ اپنے "سکول بیگـ" کے بوجھ کے نیچے ہی اتنا دب گیا ہے ،کہ اُسے اپنی اقدار وروایات سیکھنے کے لیے فرصت ہی میسر نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کی فکر مندی اور دلسوزی بجا،یقینا جمعۃ المبارک کا ہفتہ وار اجتماع بھی مفید ،موثر اوربامقصد رہنا چاہیے تھا،جوکہ اب سکُڑ کر چند لمحوں تک محدود ہو کر رہ گیاہے ،خطیب ِ شہرکی نا پختہ خیالی بھی اپنی جگہ ---مگر قوم کے نونہال ---مسجد یا دینی مدرسہ میں نہیں، آ پ کے سکول اور کالج میں پڑھنے، سیکھنے اور زیور علم سے آراستہ ہونے کے لیے جاتے ہیں ، وہ بھی ہفتہ میں کم از کم 5یا 6دن،وہ اپنا " پرائم ٹائم" آپ کے پاس گزارتے ہیں ، اور آپ تک پہنچنے کے لیے ان کے خاندان کی کتنی توانائی صَرف ہوتی ہے اور کتنے مالی وسائل---اس کا آپ کو بھی بہتر انداز ہے۔ روزانہ ---بن سنور کر ،اپنی پوری ذہنی اور جسمانی تیاری کے ساتھ، علم کی روشنی سے خود کو آراستہ کرنے کے لیے ، آپ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، قوم کو گلہ تو آپ سے ہے کہ "ملکی بجٹ"کا معتدبہ حصہ آپ کی تنخواہوں اور تعلیمی وتدریسی سہولیات کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تیاری پر خرچ ہورہا ہے ،مسجدوں کے اماموں اورخطیبوں کی تنخواہوں پہ نہیں ۔ان عام مسجدوں اور مدرسوں کے معمولی مشاہروں سے استفادہ کرنے والے ائمہ وخطباء ---اب بھی ریکروٹمنٹ ،پروموشن ، انکریمنٹ ،موو و اور اورپنشن جیسی اصطلاحات سے نابلد ہیں ،جس پر سارا سال آپ کے ساتھی سرکاری اساتذہ اپنی توجہ مرکوز کیئے رکھتے ہیں ، یہ بھی ہونا چاہیے ---کہ یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں ،لیکن "نفس مسئلہ " صرف یہی تو نہیں ہے۔مسجد اور مولوی کو آپ ضرور"شوکاز نوٹس"جاری کریں ، اس لیے کہ آج کل کا فیشن ہی یہی ہے ،لیکن آپ نے کبھی یہ بھی سوچا کہ اس مسجد اور اس کے مولوی کو ہماری سوسائٹی نے صدقات اور خیرات ،جس کو مال کا میل کہا گیا ہے ،کے علاوہ دیا ہی کیا ہے ۔کیا آپ ، اپنے بچے کے مسجد سے تعلق کے بارے میں بھی کبھی فکر مند ہوئے ---ہماری معاشرت کا وہ خوبصورت اورحسین باب ،موجود ہ قومی زندگی کی کتابِ حیات سے نکل گیا ،جس کے تحت بچہ ہوش سنبھلتے اپنا سب سے پہلا تعلق مسجد سے قائم کرتا اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس کے ذہن پر جو اولین نقش ثبت ہوتے وہ مسجد کے روح پروردرو دیوار کے ہوتے، جو تہذیبِ نفس اور تعمیر سیرت کے حوالے سے زندگی بھر، اس کے لیے روشنی اور راہنمائی کاباعث بنتے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ورک صاحب کا تعلق بھی اسی جنریشن سے ہوگا ،جنہوں نے حروف تہجی مسجد کے کچے فرش پہ بیٹھ کر مولوی صاحب سے سیکھے ہوں گے ، اور اس مٹی کے فرش سے اُٹھنے والی سوندہی خوشبو اب بھی ان کے مشامِ جاں کو ---کبھی کبھار تومعطر کرتی ہوگی ، کیا ان نور آفر ینیوں اور علم پروریوں کا کوئی قرض بھی ہمارے ذمے ہے یا نہیں --- حالات کی ستم ظریفی اپنی جگہ ، فرقہ واریت کی بات بھی معتبر ، دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی بجا ۔ ان سارے عوامل کے ردّ عمل میں الزام ہم نے اگر کہیں دھرا تو صرف اور صرف مسجد اور مدرسہ اوراس کے مولوی پرہی کیوں ،کالج اور یونیورسٹی پر کیوں نہیں ---؟ حالانکہ جو خوفناک فرقہ واریت کالجوں اور بالخصوص یونیورسٹیوں میں ہے ، اس کو احاطہ تحریر میں لانا شاید مشکل ہو ، ڈاکٹر ورک صاحب اَسّی اور نوّے کی دہائی کی پنجاب یونیورسٹی کو شاید کبھی نہ بھلا سکیں ،جہاں کسی دوسرے مسلک ،نقطئہ نظر اورمکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے طالب علم کو اپنی شناخت کے ساتھ یونیورسٹی میں رہنے کے لیے بڑی قربانی دیناپڑتی تھی ۔ مدارس اور مساجد کی مسلکی پہچان تو صدیوں پر محیط ہے، گلہ تو ان تعلیمی اداروں کے روشن ماحول پرہے ، جہاں دوسری فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے سرے سے کوئی گنجائش نہیں۔حالانکہ یہ تو ہمارے ’’قومی ادارے‘‘ہیں ، جن پر سرکاری اور ریاستی بجٹ استعمال ہوتا ہے ، کسی تنظیم ، گروہ یامکتب فکر کا نہیں ،جہاں تک ’’حج سیکنڈل‘‘کی بات ہے ،تو یہ اور اس جیسے جتنے بھی سکینڈل ہیں ،وہ سارے قابلِ مذمت ہیں ،ہاں البتہ کسی تعلیمی درسگاہ ، یونیورسٹی اور پھر اس کے سربراہ کا نیب زدہ ہونا ، ان سب سے زیادہ خوفناک بلکہ خطرناک ہے ۔