تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد عین موقع پر پی ڈی ایم کو ملتان میں جلسہ کرنے کی اجازت دیدی گئی۔اس ضمن میں حکومت کے ترجمان شہباز گل کا دوٹوک اعلان بھی سامنے آ گیا تھا کہ جلسے کی راہ میں رکاوٹیں ہٹا لی گئی ہیں، یہ ایک انتہائی دانشمندانہ فیصلہ تھا، اس طرح بڑے تصادم کا خطرہ ٹل گیا اور جانی ومالی نقصان نہیں ہوا۔ محترمہ مریم نواز جو جلسہ کے روز ہی ملتان پہنچیں،انہوں نے برملا کہہ دیا تھاکہ جلسہ ہر صورت ہو گا ۔ قیاس ہے کہ سکیورٹی اداروں نے اس حوالے سے کلیدی رول ادا کیا بصورت دیگر انتہائی پیچیدہ صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ تھا ۔دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دھمکی دیدی تھی کہ ملتان میں جلسہ کرنے تک یہیں رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا ء اللہ الٹی میٹم دیتے رہے کہ ایک گھنٹے کے اندر رکاوٹیں ہٹائی جائیں ورنہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔لگتا ہے کہ رانا صاحب بھی بعد از خرابی بسیا ر گیدڑبھبھکیاں دیتے رہے جلسہ تو ہونا تھا خواہ حکومت اجازت دیتی یا نہ دیتی۔ نہ جانے جلسہ کرنے اور نہ کرنے کو حکومت اور اپوزیشن نے انا کا مسئلہ کیونکر بنا لیا تھا کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ کورونا وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ این سی اوسی کے مطابق ملک کے بڑے شہر کورونا سے شدید متاثر ہوئے ہیں ان میں راولپنڈی، اسلام آباد ،کراچی ، حیدر آباد، پشاور اور لاہور سرفہرست ہیں۔ ہوشمند ی کا تقاضا تو یہی تھا کہ پی ڈی ایم جلسہ ملتوی کر دیتی لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی ڈائیلاگ ہی نہ ہو تو اتفاق رائے سے فیصلے کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ اگر ملتان کا جلسہ ہو گیا تو تحریک انصاف کی حکومت کی چھٹی ہو جائے گی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں پہلے اتنے جلسے ہو چکے ہیں وہاں اس کے ہونے سے بھی سوائے کورونا پھیلنے کے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا ۔ ادھر حکومت کی سوچ بھی اعلیٰ ظرفی پر مبنی نہیں ۔ انٹرنیٹ بند کرنا ، موبائل فون سروس معطل کر دینا سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملتان والی اقامت گاہ کو سیل کر دینا جیسے ہتھکنڈے چہ معنی دارد۔انٹرنیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے بلاول بھٹو جو کورونا ہونے کی وجہ سے قرنطینہ ہیں بھی ویڈیو لنک خطاب نہ کر سکے۔ شہباز گل جب بار بار اعلان کر رہے تھے کہ حکومت نے جلسے کی اجازت دے دی ہے اس وقت کارکن ٹولیوں کی صورت میں جلسہ گا ہ پہنچنا شروع ہو چکے تھے اور انہوں نے ایک موقع پر سکیورٹی حصار اور ٹریکٹر ٹرالیاں وغیرہ ہٹا دی تھیں اور وہ سب کچھ توڑ کر قاسم باغ سٹیڈیم میں داخل ہو گئے تھے،گویا کہ ملتان کا جلسہ طوہا ً وکرہا ً ہو ہی گیا ۔حکومت کی طرف سے قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم کو سیل کرنے کی وجہ سے سٹیج اور ساؤنڈ سسٹم وغیرہ کے انتظامات نہ ہونے کے باعث ملتان کا گھنٹہ گھر ہی جلسہ گاہ میں تبدیل ہو گیا۔اس جلسے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹونے اپنے سیاسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا ہے۔ لیکن کیا جلسے سے تحریک انصا ف کی حکومت ختم ہو گئی ہے ؟ مولانا فضل الرحمن نے ان جلسو ں کو حق اور با طل کی جنگ قرار دیا ہے، جلسے میں خطاب کے دوران انہوں نے ملتان میں پی ڈی ایم کے کارکنوں پر تشدد کیخلاف جمعہ اور ہفتے کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے ۔یوں محسو س ہو رہا تھا کہ حکومت کی بقا ملتان کے جلسے کے نہ ہونے سے ہی تھی حالانکہ جلسوں یا جلسیوں سے شاذ ہی حکومتیں گر اکرتی ہیں ۔ عمران خان نے 2014ء میں126 دنتک اسلام آباد کے ڈی چوک پردھرنا دیا، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر یلغار کی اور کئی حربے استعمال کئے لیکن نواز شریف کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی حتیٰ کہ سانحہ اے پی ایس پشاور کے سوگ میں انہیں مجبوراً اپنی تحریک کو منسوخ کرنا پڑا لیکن اگر وہ مزید عرصہ بھی ڈی چوک پر بیٹھے رہتے تب بھی حکومت گرنے والی نہیں تھی ۔یہ الگ بات ہے کہ تیسر اامپائر آ کر حکومت کو گھر بھیج دیتا لیکن اس کا بھی امکان نظر نہیں آ رہاتھا ۔ حکومتیں اپوزیشن کی تحریک سے کمزور تو ہو جاتی ہیں لیکن رخصت کم ہی ہوتی ہیں ۔ اس طرح کی تحریکوں کو استعمال کر کے تیسرا فریق فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں حکومتیں گر بھی جاتی ہیں ،مثال کے طور پر پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ذوالفقا ر علی بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی تھی جس کے بعد قوم پر آمریت کی طویل رات مسلط ہو گئی ،فائدہ عوام کوپہنچا نہ سیا ستدانوں کو صرف سازشی جرنیل ضیا ء الحق کامیاب ٹھہرے ،وہ ایک دہائی سے زیا دہ عرصہ پاکستان پر مسلط رہے اور اس دوران تمام سیاسی ادارے تباہ کردیئے گئے ۔ اس قسم کی صورتحال دوبارہ پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ این آر او نہ دینے کو جواز بنا کر کسی قسم کے ڈائیلاگ کو مسترد کردیا جاتاہے ۔ اس قسم کی ضد کی بنا پر کسی معاملے پر اتفاق رائے پیداکرنا ناممکن ہو گیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان مذاکرات کرنے کے بجائے سولو فلائٹ کے ذریعے معاملات چلانا چاہتے ہیں حالانکہ جمہوریتیں ،ڈائیلاگ اور کچھ لو او ر دو کی بنیاد پر ہی چلتی ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جو اپنی والدہ کے انتقال کی بنا پرپیرول پر رہا ہوئے انہوںنے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ سے ہی ملکی حالات بہتر ہو سکتے ہیں ۔شہباز شریف نے کہا کہ افسوس کی با ت یہ ہے کہ حکومت کی بات گالی سے شروع اور گالی پر ہی ختم ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا ملک کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں،ہر شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے، اجتماعی کاوش سے ملک کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں ، پی ٹی آئی نے قومی سیاست میں زہر گھول دیا ہے۔ میانہ روی اور سنجیدگی سے جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق طرز عمل اختیا ر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس پر کہا جاتا ہے کہ ا ین آر او مانگ رہے ہیںحالانکہ فریقین کے درمیان بات چیت کا مقصد کوئی بھی ہو محض بات چیت کر نے سے این آر او نہیں مل جا تا۔ ویسے بھی حکومت کی مجبوری نہیں ہے کہ وہ اپوزیشن سے این آر او دینے کے لیے مذاکرات کرے تاہم مذاکرات کے بغیر کاروبار مملکت آ گے نہیں چل سکتا ۔ جب این آر او لینے یا دینے کی باری ا ٓتی ہے تو پلک جھپکتے ہی سب کچھ ہو جاتا ہے غالبا ً یہ نوبت ابھی نہیں آئی ۔لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اپوزیشن کے بعض رہنماؤںکی جانب سے این آر او طرز کا کوئی معاہدہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی ۔