کورونا کی وبا کم ہونے پر حکومت نے ملک بھر میں ریسٹورنٹس ،پارک، سینما اور کاروباری مراکز پرانے اوقات کے مطابق کھولنے کا اعلان کیا ہے ۔ حکومتی اعلان میں کہا گیا ہے کہ ایکسپو سنٹرز، بیوٹی پارلر ، جم،تھیٹر اور مزارات دس اگست سے کھولے جا رہے ہیں ۔ شادی ہالز اور تعلیمی ادارے پندرہ ستمبر سے کھلیں گے۔وفاقی حکومت کے فیصلے کے مطابق سیاحتی مقامات کو فوری طور پر عوام کے لیئے کھولا جا رہا ہے ،دکانوں پر لاک ڈائون کی پابندی ختم ہو رہی ہے۔کاروباری افراد کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ ہفتہ اور اتوار کو بھی اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔کسی بزرگ کے عرس یا کسی نوع کے اجتماع کی خاطر ضلعی انتظامیہ سے اجازت لینا ضروری ہو گا۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا‘ خاص طور پر وہ ممالک جہاں کی معیشت کا انحصار صنعت اور خدمات پر تھا وہ بری طرح متاثر ہوئے۔بہت سے غریب اور پسماندہ ممالک کے لئے مشکلات اس باعث زندگی موت کا معاملہ نہ بن سکیں کہ ان ملکوں کی بنیاد زرعی شعبے پر تھی۔ لوگوں کو تمام کاروباری اور روزگار سے متعلق مسائل کے باوجود روٹی ملتی رہی۔ پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس فروری 2020ء میں سامنے آیا جب ایران سے آنے والے ایک زائر میں وائرس کا پتہ چلا۔ کورونا کی وبا چین میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کرنے کے بعد یورپ اور امریکہ پہنچ گئی۔ پاکستان کے دوسرے ہمسایہ ملک ایران میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افراد کورونا کا شکار ہونے لگے۔وبا نے بھارت اور پاکستان کی آبادی کو لگ بھگ ایک ہی وقت میں متاثر کیا لیکن عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نے اس خطرناک وبا پر قابو پانے کے لئے جو اقدامات کئے وہ باقی ممالک سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہو رہے ہیں۔ شروع میں ناتجربہ کاری اور وبا سے متعلق تیکنیکی معلومات کم ہونے کے باعث کچھ مشکلات درپیش ہوئیں۔ حفاظتی ٹیکنالوجی اور ویکسین کی عدم موجودگی نے خطرے کی شدت میں اضافہ کر دیا۔ پاکستان کی نصف سے کچھ کم آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ شہروں میں تعمیرات کا شعبہ لاکھوں افراد کو روزگار دیتا ہے۔ بازاروں میں دکانیں ہیں جہاں مختلف نوع کا مال اور اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ تعلیمی ادارے ہیں‘ شاپنگ مالز‘ جم‘ سینما اور کھیلوں کے میدان ہیں‘ ریسٹورنٹس اور کارخانے ہیں۔ کورونا کے انسداد سے متعلق کام کرنے والے ماہرین نے پہلی احتیاطی تدبیر یہ بتائی کہ جس علاقہ میں شہری ایک دوسرے سے گھلیں ملیں گے وہاں کورونا کی مکمل ناکہ بندی کر کے کورونا پر قابو پانا تھا لہٰذا پاکستان کے لئے پہلی احتیاطی تدبیر یہی ہو سکتی تھی کہ شروں کو لاک ڈائون کر دیا جائے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی‘ بازار اور منڈیاں بند ہو گئے‘ شاپنگ مالز ریسٹورنٹس‘ جم اور کارخانے بند کر دیے گئے۔ اس دوران دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے افراد کی مالی مدد کے لئے حکومت نے احساس کفالت پروگرام شروع کیا۔ اب تک لاکھوں افراد کو اس پروگرام کے توسط سے مدد مل چکی ہے تاہم حکومت کو جونہی اندازہ ہوا کہ کورونا کی وبا جلد ٹلنے والی نہیں تو حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی۔وزیر اعظم نے دو ماہ کے لاک ڈائون کے بعد تعمیراتی شعبے کو کام کی اجازت دیدی بلکہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کو مثالی مراعات دے کر اس قابل بنانے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ نرسریوں ‘دکانوں‘ شاپنگ مالز‘ ریسٹورنٹس ‘ جم اور تھیٹر سے وابستہ افراد کے لئے پچھلے پانچ چھ ماہ بہت تکلیف دہ رہے۔ دکانوں کا کرایہ، ناگزیر ملازمین کی تنخواہیں‘ یوٹیلیٹی بلز اور دیگر لازمی اخراجات نے ان کاروباروں سے وابستہ افراد کے لئے مشکلات ناقابل برداشت حد تک بڑھا دیں۔ عیدالفطر کے موقع پر جب حکومت نے دکانیں کھولنے کی اجازت نہ دی تو تاجروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ وہاں سے اجازت ملنے کے بعد خریداروں اور دکانداروں نے ایس او پیز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ جس کا نتیجہ عیدالفطر کے فوری بعد کورونا کی شدت میں اضافے کی صورت میں نکلا۔ حالیہ عیدالاضحی سے چند روز قبل حکومت نے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا تو تاجر اور کاروباری افراد نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا کہ عیدالاضحی کے موقع پر کورونا کی شدت کم رہی تو حکومت کئی کاروبار کھولنے کا فیصلہ کرے گی۔ خوش آئند بات ہے کہ لاک ڈائون اور سما رٹ لاک ڈائون کے طریقہ کار موثر ثابت ہوئے اور عوام کی طرف سے بھی عیدالفطر کی نسبت اس بار زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا۔عید کے دوران اور بعد میں لئے گئے نمونوں سے معلوم ہوا کہ ملک میںکورونا کی وبا دم توڑ رہی ہے۔ حکومت نے کاروباری اور تفریحی مقامات کو کھولنے کا اعلان کر کے کروڑوں افراد کو ایک بڑی سہولت دی ہے۔ یقینا وبا اب تباہ کن نہیں رہی لیکن پوری دنیا میں کورونا کی وبا دوسری لہر کی صورت میں ابھر رہی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں کورونا کے کیسز پھر بڑھنے لگے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں معمول کی کاروباری اور تفریحی سرگرمیوں کے دوران حفاظتی تدابیر کو فراموش نہ کیا جائے۔معمولات اندگی کی بحالی خوش آئند ہے۔عوامی سطح پر اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود ایک بڑے خطرے کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اس کامیابی کو دوسرے شعبوں میں درپیش چیلنجز سے نمٹتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہیے۔