پھر جنید یاد آئے‘سیدالطائفہ جنید بغدادؒ ‘نیم مجذوب حسین بن منصورحلاج دعوے پہ دعویٰ کرتا رہا تو فرمایا: حسین یہ کاروبار دنیاہے ‘ازل سے ایسا ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اعتدال کی ایک آدھ آواز ۔بالعموم دو طرح کے ردعمل ہیں۔ایک کا مطالبہ ہے کہ اپنے ان مخالفین کو طالبان شریک اقتدار کریں‘بیس برس تک جو امریکہ کے ساتھ مل کر افغانیوں کا قتلِ عام کرتے رہے۔دوسروں کی بہترین مثال‘ایک پیغام ہے‘جو آج موصول ہوا ’’قرآن کریم کے ایک ایک حرف کو طالبان نے سچا ثابت کر دیا‘‘ ایک ایک لفظ کو! سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔طالبان کے اندرونی حالات اور افغانستان کی صورت حال کے بارے میں معلومات محدود ہیں۔مثلاً قندھار اور پکتیکا گروہوں کے اندازِ فکر میں کیا اور کتنا فرق ہے۔ثانیاً اندازوں سے بہت پہلے حاصل ہو جانے والے اقتدار میں ان کی مجبوریاں کیا ہیں۔ دہرانے کی اجازت دیجیے۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔افغانستان کے باب میں آشکار سچائی یہ ہے کہ ایک ریاست نہیں بلکہ یہ قبائل کا وفاق ہے۔پشتون ‘ہزارہ‘ تاجک‘ ازبک اورترکمان‘ سردار دائود کے انقلاب سے شکست و ریخت کا جو عمل شروع ہوا ‘ابھی تک جاری ہے۔چالیس برس سے یہ سرزمین جنگ کی بھٹی میں جھلس رہی ہے۔سوویت قبضے کے آٹھ برسوں میں تیرہ لاکھ افغانی قتل ہوئے اور اتنے ہی اپاہج ۔ہزاروں برس سے آباد چلے آتے دیہات برباد کر دیے گئے ۔ملک کی نصف آبادی کو اندرون ملک اور بیرون ملک ہجرت کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے انقلابی‘ایک قبائلی سماج میں سوشلزم نافذ کرنے آئے تھے۔پھر امریکی نمودار ہوئے اور ایک پسماندہ معاشرے میں انہوں نے مغرب کا جمہوری نظام مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح نہیں ہوتا‘کبھی اس طرح نہیں ہوا۔صدیوں کے سفر میں ایک قبائلی معاشرہ جدید صنعتی سماج میں ڈھلتا ہے۔ فوجی قوت کے بل پراس کی تشکیل جدید‘ایسی حرکت ہے جیسے دینی مدرسے کے ایک طالب علم سے ایک سائنس دان کا کردار ادا کرنے کی امید باندھی جائے۔ منگل کی پریس کانفرنس میں طالبان کے ترجمان نے بار بار وضاحت کی کہ یہ ایک عبوری انتظام ہے۔‘باقی لسانی گروپوں کے نمائندے شریک کئے جائیں گے۔ کیا ایک تباہ حال معاشرے کے لیڈروں کو ‘جن میں سے اکثر جدید دنیا کے تقاضوں کا پورا ادراک نہیں رکھتے‘تھوڑی سی مہلت نہیں دینی چاہیے؟اس دنیا کے مقابل جو ان سے ناراض و نالاں ہے۔اور جس نے ان کا بائیکاٹ ساکر رکھا ہے؟ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ یہ ہے کہ 90فیصد افغانی دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن کے حامل ہیں۔خوراک اور دوائوں کا قحط ہے۔صورت حالات یہی رہی تو ایک عظیم انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ان سے ہمدردی رکھنے والے پاکستان اور چین نے اب تک کتنی دوائیں اور کتنی خوراک ان لوگوں کو فراہم کی ہے‘قحط کا خطرہ ہے‘جن کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ پاکستان‘چین‘روس‘ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کا مطالبہ یہ ہے کہ اوّل ان کے خدشات دور کئے جائیں‘تب ان کے بارے میں وہ فیصلہ صادر کریں گے۔ایک بیمار اور بھوکے سے کیا یہ کہنا چاہیے کہ اول تو وہ حسن کردار کا مظاہرہ کرے‘اپنے بارے میں اندیشوں کا سدباب کرے۔اس کے بعد کھانے کا لقمہ یا دوا کی گولی عنایت کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ ایک معمولی واقعہ ہے کہ فتح پاتے ہی بیس برس تک دنیا بھر کے عتاب کا شکار رہنے والوںنے مخالفین کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔بار بار کہا کہ انتقام نہیں لیا جائے گا۔بیس برس تک زخم کھانے والوں کا کیا کوئی دوسرا گروہ بھی ایسا ہے‘اس اعلیٰ ظرفی کا جس نے مظاہرہ کیا ہو؟ چھاپہ مار جنگ ایک چیزہے اور کاروبار حکومت بالکل دوسری۔انقلابات اٹھتے ہیں تو زمین لہو سے بھر جاتی ہے۔ سٹالن نے پانچ کروڑ انسانوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ مائوزے تنگ کے عہد میں ایک کروڑ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔طالبان سے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پہ اصرار کرنے والا انکل سام کیا وہی نہیں‘پانچ کروڑ ریڈ انڈینز کو جس نے ہلاک کر ڈالا تھا۔جنگوں کے علاوہ ان میں بہت سے ‘جراثیم سے بھرے ان کمبلوں سے ہلاک کئے گئے تحفے کے طور پر جو پیش کئے گئے تھے۔ افریقہ سے کروڑوں سیاہ فام اغوا کر کے لائے گئے ‘ان میں سے آدھے سفر کے ہنگام ہلاک ہو گئے۔ افراد کی طرح اقوام بھی وحشت کا شکار ہوتی ہیں تو ایسے اور اتنے ہی عظیم سانحات جنم لیتے ہیں۔ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی کو الگ رکھیے‘ را کے ایجنٹ کی ایم کیو ایم نے تین عشروں تک کراچی کے ساتھ کیاکیا؟اس دوران ملک کی مہذب سیاسی جماعتوں اور پاکیزہ اطوار اسٹیبلشمنٹ نے کتنی مزاحمت کی ؟ چوہدری شجاعت حسین بیان کرتے ہیں:1990ء کا الیکشن جیتنے کے بعد شریف برادران کراچی کا قصد فرما رہے تھے کہ ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کریں۔مشاورت جاری تھی کہ میاں شریف نمودار ہوئے اور فرمایا:سب مطالبات ان کے مان لینا‘بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔جون 1995ء سے دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی مہم 1996ء میں اختتام کو پہنچی تو بے نظیر برطرف کر دی گئیں۔نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو نہ صرف پانچ سو دہشت گرد رہا کئے بلکہ پچاس کروڑ روپے تاوان قاتلوں کوادا کیا۔ اس دنیا میں جہاں یہ سب کچھ رونما ہوتا ہے‘طالبان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ فرانس یا جرمنی ایسی ایک جدید حکومت تشکیل دیں۔ ان کی محدودات ہیں۔ہزاروں ساتھی ان کے بے رحمی سے مارے گئے۔صرف سراج الدین حقانی کے چار بھائی جاںبحق ہوئے۔دو عشروں تک وہ بیابانوں‘جنگلوں‘پہاڑوں‘غاروں یا دور دراز کے دیہات میں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ آدمی ہیں ‘وہ روبوٹ نہیں۔ ڈیل کارنیگی نے لکھا ہے:ابرہام لنکن کی تلخ ترین تحریر‘ان کی وفات کے بعدایک میز کی دراز سے برآمد ہوئی۔1859ء سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کے ہنگام پہ ایک جنرل کے نام تھی:تم ہمیشہ مزید جوانوں‘ہتھیاروں اور سامان کا مطالبہ کرتے ہو۔یہ خط کبھی سپرد ڈاک نہ ہوا۔ڈیل کارنیگی نے لکھا ہے:گمان یہ ہے کہ عبارت تحریر کرنے کے بعد لنکن نے ایوان صدر کی کھڑکی سے باہر جھانکا ہوگا۔شب کی تاریکی میں ہڈیوں کا گودا جما دینے والی ٹھنڈ کو محسوس کیا ہو گا۔پھر یہ سوچا ہو:جنوبی امریکہ کے خون آشام دشمنوں کے درمیان‘حالت جنگ میں وہ امداد کا طلب گار ہے۔امداد اگر نہیں دی جا سکتی تو کم از کم حوصلہ شکنی سے گریز کرنا چاہیے۔ خدا کی بستی جنت تو کبھی نہ تھی۔آدمی کو آزمائش کے لئے تخلیق کیا گیا۔ابتلا اور امتحان اس کا مقدر ہیں۔اب مگر یہ لگتا ہے کہ باقی ماندہ احساس اور درد مندی بھی دنیا سے رخصت ہوئی۔حکمران ‘سیاست دان اور جنرل اگر بے رحم ہیں تو سنسنی پسند میڈیا ان کا مددگار۔ غور و فکرکے لئے فرصت نام کی کوئی چیز شاید باقی نہیں رہی۔ آخری زمانوںکے باب میں سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک کا خلاصہ یہ ہے:مہینے دنوں کی طرح اوردن چولہے میں جلتے تنکوں کی طرح گزرتے جائیں گے۔ جہاں تک طالبان کو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح ‘اہل تقویٰ کے طور پر پیش کرنے والوں کا تعلق ہے ‘ ان کے لئے بھی ذبیح اللہ مجاہد کے اظہار خیال میں غور و فکر کے مواقع موجود ہیں۔ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے والی تحریک طالبان کے بارے میں انہوں نے کہا:پاکستان کا یہ اندرونی معاملہ ہے۔کشمیر کے باب میں محترمہ نسیم زہرہ نے سوال کیا تو ان کا جواب یہ تھا: یہ پاکستان اور بھارت کا تنازعہ ہے‘پرامن طریق سے جو حل کرنا چاہیے۔نسیم زہرہ نے انہیں یاد دلایا کہ وادی میں ظلم کا بازار گرم ہے۔دو ملکوں کا تنازعہ نہیں یہ ایک بین الاقوامی معاملہ ہے‘اقوام متحدہ کی قرار دادیں ‘جس پر گواہ ہیں۔ پھر جنید یاد آئے‘سیدالطائفہ جنید بغدادؒ ‘نیم مجذوب حسین بن منصورحلاج دعوے پہ دعویٰ کرتا رہا تو فرمایا: حسین یہ کاروبار دنیاہے ‘ازل سے ایسا ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا