کمال نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے یہ تو خیر اس عطا کا کام ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ نام میں رکھا بھی کیا ہے۔ کام دیکھا چاہیے۔ حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے‘ خیر یہ باتیں تو ذہن نارسا کی ہیں اور محسوس کرنے والے دل کی ہیں۔ آپ کی دلچسپی کیلئے میں نہایت دلچسپ بات آپ سے شیئر ضرور کروں گا کہ ایک شخص بونگ اور سری پائے بیچنے والے کے پاس آیا اور شکایت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یار تم نے بچے کو ایسے ہی ٹرخا دیا ہے! دکاندار یعنی سری پائے والا کہنے لگا جی شیخ صاحب! ایسی بات نہیں کھلے ہاتھ سے سالن ڈالا ہے۔ احتجاج کرنے والے نے برتن سے ڈھکنا اٹھاتے ہوئے کہا۔ دیکھو یار ! اس میں روشنی تو کرو۔ اب اس روشنی کو عام آدمی تو سمجھے گا پڑھا لکھا نہیں کہ وہ تو اس روشنی سے بھاگتا ہے۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ اس نے سری پائے کے شوربے میں تری نہیں ڈالی یہ تری گھی ہوتا ہے جس سے سالن خوشنما لگنے لگتا ہے اور یہ تری کھانے والے ہی کھاتے ہیں یہ سراسر کلیسٹرول ہی تو ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہ روشنی اور روشنائی ان آنکھوں میں چمکتی ہے جو معدے سے سوچتے ہیں۔ مرغن غزائیں ان کے لئے زندگی کی سب سے بڑی اسائش ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا جاتا ہے کہ وہ گھر بیچ کر بھی سری پائے کھا جاتے ہیں ویسے اس حوالے سے نواز شریف اینڈ پارٹی کو بہت شہرت ملی کہ وہ ہریسہ‘ بونگ ‘ کھد اور نہ جانے کیا کیا کچھ مرغوب رکھتے تھے۔ یہ ایک دنیا ہے جہاں کھانے کا نامہ ’’کھابہ‘‘ بھی ہے اور لنگر بھی ان کا اوڑھنا بچھونا بھی یہی کچھ ہے۔ بات تو میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ ایک روشنی اور روشنائی وہ بھی تو ہے جس سے لکھا جاتا ہے وہ تختی پر لکھا ہو یا کاغذ پر۔ حالانکہ یہ سیاہ ہوتی ہے مگر روشن لفظ لکھتی ہے یہ روشنائی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے اور دلوں کو اُجالا کرتی ہے۔ کس کو یاد نہیں ہو گا کہ بچپن میں ہم روشنائی کی پڑیاںدوات میں ڈالتے اور پھر قلم کے ساتھ اس میں پانی حل کرتے اور اس کو ہلاتے تو اس میں چمک آتی۔ اب تو خیر بال پوائنٹس اور مارکر یا پوائنٹرنے لکھائی تباہ کر دی ہے، وگرنہ خوش خط لکھنے کا مقابلہ ہوتا۔ بات انحطاط کی چلی ہے تو روشنائی کے بعد تعلیم کی بات بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں بھی تیرگی نظر آتی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ گلی محلے میں سکول ہی سکول کھل گئے۔ جب سے سکول بڑھنے لگے ہیں تعلیم کاروبار بن گئی ہے۔ یہ سکول نہیں ہیں یہ دکانیں اور سپر سٹورز ہیں جہاں بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے بلکہ خریدتے ہیں ،یہاں تعلیم بکتی ہے ملتی نہیں ہے۔ سکول کھولنا سب سے آسان کام ہے۔ مجھے ایک بات کبھی نہیں بھولتی کہ مجھے معروف صحافی توصیف احمد صاحب نے بتایا کہ ان کو ایک پرانا دوست ملنے کے لئے آیا تو اس نے انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں اور اس دوست نے کئی مرتبہ میٹرک کا امتحان دیا تھا اور پاس نہیں کر سکا تھا۔ بیس سال کے بعد وہ ملنے آیا تو مجھے ماضی یاد آ گیا میں نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا کہ میری جان تمہارا میٹرک ہو گیا تھا یا نہیں؟ اس نے نہایت بے نیازی سے کہا خان صاحب میٹرک پر لعنت ڈالیں۔ میں نے ایک بہت بڑا کالج کھول رکھا ہے اور میں اس کا پرنسپل ہوں۔ کئی ڈاکٹر پروفیسرز وہاں پڑھاتے ہیں اور بہت معیاری تعلیم چل رہی ہے: کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں اب تو سکول اور کالج کھلتا ہے اور پھر ان کی چینز بنتے ہوئے دیر نہیں لگتی ۔قصور کسی ایک کا نہیں سب کا ہے۔ استاد بھی اپنی پرائی ویٹ انگیجمنٹ کو اہمیت دیتا ہے اور اپنی سرکاری نوکری کو وظیفہ یا حق سمجھتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے کی بات ہے جو مجھے لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں بھی اسی شعبہ سے وابستہ رہا ہوں۔میں ٹیوشن وغیرہ کے خلاف نہیں مگر وہ رویہ غلط ہے جس میں بچے آپ کے بیٹے نہیں بنتے اور آپ کو ان کے ساتھ انس پیدا نہیں ہوتا۔ بچے بھی اپنی اکیڈمی کو اہمیت دیتے ہیں اور سرکاری کالج کو صرف داخلہ بھیجنے کے لئے سمجھتے ہیں۔ دونوں استاد اور شاگرد غیر اعلانیہ طے کر لیتے ہیں کہ اصل جگہ تو اکیڈمی ہی ہے۔ یہ بچے تو ٹھیک رہتے ہیں وہ بچے مارے جاتے ہیں جو صرف سرکاری فیس دے کر پڑھتے ہیں پڑھتے کیا ہیں‘ کڑھتے رہتے ہیں شکایت کون کرے۔ سائنس میں تو کوئی سر نہیں اٹھا سکتا۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حکومت پر تنقید کرتے ہیں مگر ہم نے خود تعلیم کا کیا حشر کر دیا ہے۔ اگرچہ ادارے تو سارے ہی برباد ہوئے ہیں مگر تعلیم کو بچانا چاہیے تھا۔ اب یکساں نظام تعلیم کی بات کی جاتی ہے اور اردو کو میڈیم بنانے کی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ رائج منافقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایک زمانے میں خالد پرویز صاحب نے معراج خالد کے ساتھ مل کر اچھی خاصی تحریک چلائی تھی کہ کسی طرح سے یکساں نظام تعلیم رائج ہو سکے۔ مگر یہاں لوگ یکساں نہیں ہیں اور وہ حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پھر اس میں این جی اوز ٹپک پڑیں۔ یکساں نظام تعلیم کو ایک طرف سلیبس ہی چند ہاتھوں میں دے دیا گیا کہ وہ منظور نظر اور چہیتے تھے۔ سلیبس سے کیا نکالا اور ڈالا گیا سب جانتے ہیں اس پر میں تفصیل سے لکھوں گا اب کے بھی یہ جسارت ہو رہی ہے کہ سب کچھ کسی کے حوالے ہونے جا رہا ہے۔ تعلیم بکنا تو الگ بات تھی اب محکمہ اور نظام ہی برائے فروخت ہے: آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے آخر میں مجھے ایک اچھا تذکرہ بھی کرنا ہے کہ جہاں تعلیم کی صورت حال دگرگوں ہے وہاں کچھ لوگ اپنے تئیں تربیت کا بیڑا اٹھائے ہوتے ہیں۔ ابھی کل ہی مجھے سید قاسم علی فائونڈیشن میں جانے کا اتفاق ہوا کہ وہاں انہوں نے معروف کالم نگار اور شاعر عتیق انور راجا کی کتاب کاسہ‘ چشم کی تقریب پذیرائی رکھی ہوئی تھی۔ مجھے اچھا لگا کہ عتیق انور راجا اپنی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سید قاسم علی شاہ کی فکر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ محبتیں پھیلائو معاشرے کو بردباری‘ برداشت اور وضعداری سکھائو۔ راجا صاحب نے گوجرانوالہ میں سائبان بنا رکھی ہے یوں چراغ سے چراغ جل رہے ہیں سب نے عتیق انور راجا کی شاعری کی تعریف کی کہ اس میں عشق و محبت کے علاوہ سماجی اور معاشرتی پہلوئوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کاسۂ چشم کی ایک تقریب پذیرائی گورنر ہائوس میں ہو چکی ہے۔ نبیل انجم نے بہت اچھی میزبانی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سید قاسم علی شاہ فائونڈیشن کا یہ اچھا اقدام ہے کہ وہ ادب و شاعری کی پذیرائی کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو اپنی فکر کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ وہاں طارق چغتائی اور عمرانہ مشتاق مانی سے بھی ملاقات ہو گئی کہ وہ مقررین میں تھیں۔ آخر میں عتیق انور راجا کا ایک خوبصورت شعر: کاسۂ چشم بھرنے آیا ہوں تیرا دیدار کرنے آیا ہوں