پارلیمنٹ کے اندر اور سیاست کے میدانوں میں عوام کا موڈ بالکل متضاد سمت میں صاف نظر آتا ہے، نام نہاد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کے آپشن کم ہوتے جارہے ہیں لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن اور حکومت کے اتحادی اور ناراض ارکان کی ملی بھگت کے امکان کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ شاید عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا جاسکتا ہے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ منڈی بہاؤالدین کے بعد میلسی کا جلسہ اور جلسے میں دوڑ دوڑ کے آتے ہوئے نوجوان اورعمران خان کی تقریر کے دوران جوش وخروش مستقبل کی سیاست کا واشگاف اعلان ہے۔ عمران خان کے پاس تین مواقع ایسے آئے کہ اگر وہ اسمبلیاں توڑ دیتے تو وہ اپوزیشن کو روندتے ہوئے تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آ سکتے تھے، پہلا موقع جب مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور کچھ اتحادی شریک سازش نظر آئے اس وقت تحریک انصاف کے کارکن ایک دم پورے جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور عوام کی تائید صاف نظر آتی تھی۔ دوسرا موقع سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے موقع پر پیدا ہوا‘ تب عمران خان اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن سکیورٹی کے اداروں نے اپنی مشکلات دیکھتے ہوئے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ تیسرا موقع آج پیدا ہوا ہے ، عوام کا رجحان ، عمران خان کے جلسے اور اپوزیشن کے جلوسوں کے فرق سے واضح دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت عمران خان کے پاس دو اچھی آپشن موجود ہیں، نمبر1: باغی ارکان کو منانے کی کوشش نہ کی جائے اور عدمِ اعتماد کو پاس ہونے دیا جائے، اس کے ساتھ ہی عمران خان نئی حکومت کو تھوڑا سا وقفہ دے کر اس کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لاکر نئے انتخابات کروانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ان دو تین مہینوں میں حکومت کی کارکردگی اور عمران خان کی کامیابیوں کا فرق پاکستانی عوام دیکھ سکیں گے۔ اور عوام کا سمندر اس کے ساتھ سڑکوں پر نکلے گا۔ نمبر 2: عمران خان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی توڑ دے۔ مرکز میں حکومت برقرار رہے گی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی ۔ تب عمران خان اسی نعرے اور موڈ کے ساتھ عوام میں پنجاب الیکشن کے لیے اتریں گے جس کا اظہار انہوں نے میلسی کے جلسۂ عام میں کیا۔ ایسا کرنے سے اپوزیشن ،اتحادی اور بلیک میل گروپ کے پاس کوئی موقع نہیں ہوگا۔ وہ متحد ہوکر انتخاب نہیں لڑسکتے ، اس لیے کہ سب کی خواہش اور سب کا دائرہ اثر الگ ہے۔ عمران خان کو یہ برتری حاصل ہے کہ پورے ملک کے ہر حلقہ انتخاب میں اس کے کارکن اور مقبولیت موجود ہے۔ ہر قریہ ، ہر گاؤں ، ہر یونین کونسل میں اس کی پارٹی نمبر 1پوزیشن میں ہے یا نمبر 2۔لیکن پنجاب کے دو ڈویژن کے علاوہ باقی پنجاب میں مسلم لیگ نون اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور خاص طور پر اس حالت میں جب عمران خان بیک وقت اقتدار میں بھی ہے اور عوام کی نظروں میں سازش کا شکار بھی ۔ سیاست کی سب سے بڑی اور ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ ہر دن عمران خان کے ووٹر کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کے علاوہ عمران مخالف لوگوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ عوام میں امریکہ اور یورپ کے خلاف رجحان پایا جاتا ہے۔ عمران خان اس رجحان کا واحد نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ہر سال تقریباً پچاس لاکھ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ بڑی عمر کے تقریباً پندرہ لاکھ لوگ مرجاتے ہیں۔ اس طرح سالانہ پینسٹھ لاکھ لوگوں کا فرق آجاتا ہے۔ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں مسلم لیگ نون یا دیگر جماعتوں کو کسی حد تک رسائی حاصل ہے لیکن نئے ووٹر کے لیے عمران خان کے سوا ابھی کوئی نیا چہرہ پرکشش نہیں ہے۔ عمران خان اب بھی نوجوانوں کے ساتھ منسلک ہے اور نئی نسل کے لیے نیا لیڈر آنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔ تب تک انتخابی سیاست میں عمران خان کا مقابلہ روایتی سیاست دان نہیں کرسکیں گے۔ عمران خان نے جب کہا کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ہوجائے گا تو اس کی یہ بات لوگوں نے ہوا میںاڑادی لیکن یہ مخالفین کے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ نمبر 1: جب انتخابی گہما گہمی کے لیے میدان سجے گا تب جلسوں اورجلوسوں میں ساری اپوزیشن مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ نمبر2: عمران خان کے لیے اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرنا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کا کام ہے، لیکن مخالفین وہ اتحادی ہوں،حزب اختلاف یا پارٹی منحرف‘ انہیں انتخابی حلقے تلاش کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی اور وہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑا ہونے کے لیے مجبور ہونگے۔ نمبر3: اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت تین محاذوں پر مشکل کا سامنا ہے۔ الف : ملک کے اندر امن وامان ، ب: مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات ، ج: بیرونی ملکوں خاص طور پر بڑی طاقتوں اور مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات ۔ ان شعبہ ہائے زندگی میں عمران خان اپنی اہلیت ثابت کرچکے ہیں، ۔ اس وقت وہ سارے قائدین سے زیادہ قد آور ہیں ۔ فی الوقت ان کا کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ نواز شریف نااہل ہوچکے ہیں ، پاکستان لوٹیں گے تو انہیں جیل جانا ہے۔ جیل سے نکلنے کے لیے جتنی مدت درکار ہوگی اس وقت تک انتخابات کا معاملہ نمٹ چکے گا۔ ہم فضل الرحمن کی قیادت میں تین سال اٹھنے والا طوفان ، جلسے جلوس کا تجربہ کرچکے ہیں اور عمران خان کے کارکنوں کا جوش وخروش اور عوام کو میدان میں اتارنے یا سڑکوں پر لے آنے کے لیے عمران خان سے بہتر اہلیت کسی کے پاس نہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو ، اگلی ایک دہائی تک وہ عمران خان کی جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مختصر یہ کہ عمران خان کے پاس کم از کم تین آپشن موجود ہیں، نمبر 1: سمجھوتہ کرکے وہ اپنی حکومت جاری رکھیں اور مناسب وقت کا انتظار کریں۔ نمبر2: پنجاب اسمبلی توڑ دیں اور پنجاب کو سیاست کا میدان بناتے ہوئے صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کو برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کی چالوں کو ناکام بنا دیں۔آخری آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ساری اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کے لیے میدان میں اتریں۔اس صورت میں بھی عمران خان کی مخالف جماعتوں کی جوتیوں میں وہ دال بٹے گی اور یہ قطعی امکان ہے کہ عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائیں۔ ایک لمحے کو یہ فرض کرلیں کہ بیرونی قوتوں کے دباؤ یا اشارے پر اسٹیبلشمنٹ وہی کرے جو 2008ء میں امریکا، یورپ اور بعض عرب بھائیوں کے دباؤ میں جنرل کیانی نے کیا ، اس صورت میں بھی چند مہینوں کے اندر نئی حکومت عمران خان کے مقابلے میں نہیں رہ سکے گی۔ لہٰذا انتخاب یا سیاسی تحریک ، فی الوقت عمران خان اور تحریک انصاف کا کوئی ثانی تک نظر نہیں آتا۔ اس سارے کھیل میں سب سے بری حالت تحریک انصاف کے منحرف اراکین اور اتحادیوں کی ہوگی۔ جن کے پاس میدان میں جانے کے لیے کوئی پروگرام اور نہ میدان سجانے کے لیے کوئی قائد دستیاب ہوگا۔ بے سر کے دھڑ پر کوئی اسٹیبلشمنٹ ، کوئی بیرونی طاقت اپنا ہاتھ نہیں رکھ سکتی۔