مکرمی۔ لاہور میں کانگو وائرس کے شعبہ میں زیر علاج مریض کی ہلاکت کے بعد ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب کی جانب سے کانگو الرٹ جاری کردیا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت سندھ کے مطابق رواں برس صرف کراچی شہر میں 13 افراد کانگو وائرس کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کانگو بخار کا باعث بننے والے خطرناک کانگو وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں، مگر شہریوں میں اس خطرناک مرض سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر کے بغیر اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لئے معلوم ہونا چاہئے کہ کانگو وائرس جانوروں کی کھال پر موجود خون چوسنے والے ٹکسTick ( ایک قسم کا جراثیمی کیڑا ، جسے عام طور پر چیچڑ کہا جاتا ہے ) کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس ( چیچڑ) کا کام جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستے رہتا ہے۔ لیکن چند ایک چیچڑ وں میں کانگو وائرس موجود ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کے کنٹریکٹ میں آتا ہے یہ انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے ، یعنی اگر متاثرہ چیچڑ کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کانگو وائرس جس کا سائنسی نام کریمین کانگو ہیمریجک فیور(Crimean congo hemorrhagic fever) ہے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ (رانا اعجاز حسین چوہان )