آج ہمارے چیف جسٹس نے ایک بڑی اہم بات کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جو لوگ ڈیم کے مخالف ہیں‘ ان پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ غداری بھی آئین کی اس شہرہ آفاق دفعہ 6 کے تحت جو پرویز مشرف کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اب اگر سچ پوچھئے تو ڈیم کی مخالفت بھاشا کی مخالفت نہیں‘ کالا باغ کی مخالفت ہے۔ ہم بھاشا تک اس لیے پہنچے ہیں کہ ہم کالا باغ ڈیم بنا نہیں پائے۔ ہم نے ہتھیار ڈال دیئے اور ایک مفاہمانہ رویہ اختیار کر کے اعلان کیا کہ کالا باغ نہیں بنتا تو بھاشا بنا لیجئے۔ بھاشا کبھی ہماری اولین ترجیح نہیں رہا‘ یہ مجبوری ہے کہ کالا باغ نہیں بنتا تو بھاشا ہی سہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاشا کی تو فزیبلٹی بھی شاید ابھی تک تیار نہیں۔ جب یہ بحث شروع ہوئی تھی‘ اس وقت تک تو بالکل تیار نہ تھی۔ اس پر کئی اعتراضات تھے۔ سب سے بڑا اعتراض تھا کہ زلزلے والے علاقوں میں ہے۔ پھر یہ تخمینہ تھا کہ یہ ڈیم دس بارہ سال میں بنے گا جبکہ کالا باغ تو پانچ سال میں بن سکتا ہے۔ یہ ایک قدرتی ڈیم ہے۔ سندھ طاس منصوبے کے تحت سب سے پہلے‘ منگلا کے بعد یہیں ڈیم بننا تھا۔ سندھ کے پانیوں کو قابو کرنے کے لیے تربیلا نہیں کالا باغ کو اولیت دی گئی تھی۔ ہمارے ماہرین نے چالاکی دکھائی جو ہمیں مہنگی پڑ گئی۔ وہ چالاکی یہ تھی کہ انہوں نے سوچا عالمی امداد سے تربیلا بنوا لیتے ہیں۔ کالا باغ تو بعد میں ہم خود بھی بنوا سکتے ہیں۔ اس پر وسائل بھی کم خرچ ہونے تھے اور یہ بنانا آسان بھی تھا۔ ہم اپنی اس چالاکی کی قیمت ابھی تک ادا کر رہے ہیں۔ آج کل ہم اس پر بحث نہیں کرتے کہ کالا باغ پر اعتراض کیا تھا اور اس کی حیثیت کیا ہے۔ صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ کالا باغ پر اتفاق نہیں‘ اس لیے ملکی سالمیت کی قیمت پر ڈیم نہیں بن سکتا۔ میں پھر پوچھتا ہوں اعتراض کیا ہے۔ بتادوں‘ نہیں شرم آتی ہے۔ یہ اعتراض ہی دراصل قومی یکجہتی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ خیبرپختونخواہ کے حوالے سے تو ایک ہی اعتراض تھا کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ اس کا جواب تمام ماہرین نے دلائل کی روشنی میں دیا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ احتیاطً ڈیزائن میں مزید تبدیلی کرائی گئی کہ چلئے آپ مطمئن ہو جائیں۔ خدا سلامت رکھے‘ واپڈا کے ایک چیئرمین تھے شمس الملک۔ ان کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے‘ انہوں نے بارہا اس اعتراض کو مسترد کیا‘ وہ کالا باغ کے سب سے بڑے حامی تھے۔ اس اعتراض پر تو قابو پایا جاسکتا تھا‘ مگر جو اعتراض سندھ سے آیا وہ بہت دلچسپ تھا۔ دلچسپ اس لیے کہ چند اعتراضات تو ایسے تھے جو بھاشا یا کالا باغ ڈیم کسی پر ہی کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ دریائے سندھ پر صرف صوبہ سندھ کا حق ہے۔ پنجاب نے تو اپنے دریا بھارت کو بیچ دیئے ہیں۔ اب کسی کو بھی دریائے سندھ پر بند باندھنے کا اختیار نہیں ہے۔ خیر اسے چھوڑیئے یہ کہا گیا کہ ڈیلٹا تباہ ہو جائے گا۔ آبی حیات پر اثر پڑے گا۔ تصویریں چھاپی گئیں کہ دریا حیدر آباد سے نیچے کس طرح خشک ہے۔ کہا گیا‘ پانی ہے ہی نہیں‘ ڈیم بنائیں گے کہاں۔ شاید جو بھی اعتراضات تھے‘ ان کے جواب بھی دیئے گئے اور یہ بتایا گیا کہ آپ کے جو اعتراضات ہیں وہ تو ڈیم بنانے کے خلاف ہیں‘ پانی کو روکنے کے خلاف ہیں‘ مگر بھاشا ڈیم میں بھی یہی ہوگا۔ اس کا جو جواب آتا تھا‘ وہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ وہ جواب یہ تھا کہ کالا باغ پنجاب میں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ پانی کی کنجی پنجاب کے ہاتھ میں ہو۔ ہمیں اس پر اعتبار نہیں۔ وہ ہمارا پانی کھا جاتا ہے بلکہ پی جاتا ہے‘ کالا باغ بن گیا تو وہ سندھ کے پانی کا مالک بن جائے گا جواب میں بہت کچھ کہا گیا‘ مگر مخالفت شدومد سے جاری رہی۔ یہ جو بلوچستان بھی اس میں شامل ہوگیا تو اسے سیاست نہ کہیں تو کیا کہیں‘ بلوچستان کو تو فاضل پانی ملنا تھا۔ پانی توسندھ کو بھی ملنا تھا‘ اس لحاظ سے جتنا فائدہ سندھ کو ہونا تھا‘ اتنا کسی اور کو نہیں ہوا۔ دیکھئے‘ دریائے سندھ کا اگر پانی ذخیرہ نہیں کیا جاتا تو یہ نہ سندھ کے کام آئے گا نہ پنجاب کے نہ بلوچستان اور سرحد کے۔ جب دو سال شدید سیلاب آئے۔ ایک سیلاب نے تو سندھ کے کئی شہر زیر آب کردیئے تو لوگ سوچنے لگے مگر سیاسی نعرہ بازی کہاں سوچنے دیتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں تو ایسی تباہی آئی کہ تمام انفراسٹرکچر بہہ گیا۔ اس کا علاج کالا باغ تو نہ تھا مگر دوسرے ڈیم تھے جو زیر غور رہے ہیں۔ میں بتا رہا تھا کہ کالا باغ پر سندھ کا اعتراض کیا تھا‘ میں نے وہ تمام عرصہ سندھ میں گزارا ہے جب کالا باغ کو متنازعہ بنایا گیا۔ اس وقت سندھ میں دوہی نعرے تھے۔ پنوں عاقل نہ کھپے‘ کالا باغ نہ کھپے۔ پنوں عاقل سندھ کے وسط میں ایک شہر ہے۔ شہر کیا یہ ایک چھوٹا سا علاقہ تھا۔ پاکستان کی دفاعی ضرورت کے لیے یہاں چھائونی بنانا طے کیا گیا۔ سندھ بھر میں قوم پرست قیادت نے تحریک چلادی‘ یہ تو ہمارے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ فوج ہمارے درمیان آ کر بیٹھ جائے گی۔ اس سے ہم پر جو ظلم ہوگا‘ وہ کیا جائے گا۔ یہ وہ دن تھے جب سندھ میں علاقائیت کے جذبات زوروں پر تھے۔ یہ جو آج کل ریلوے کا مسئلہ بتایا جاتا ہے‘ ان دنوں سندھ میں یہ بڑا عجیب معاملہ تھا۔ آپ جب ٹرین پر بیٹھتے ہیں تو حیدرآباد سے آگے ٹرین میں نوجوان سوار ہو جاتے تھے جو کوئی ٹکٹ خریدنا اپنی توہین سمجھتے تھے۔ وہ مسافروں کو تنگ بھی کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک سندھ کا علاقہ گزر نہ جاتا تھا۔ ایک طرف سڑکوں پر ڈاکوئوں کا راج تھا۔ ان پر سفر کرنا غیر محفوظ تھا۔ دوسری طرف ریلوے کا یہ حال تھا۔ ایک زمانہ ایسا آیا کہ سڑکوں پر سب گاڑیاں روک لی جاتیں‘ پھر انہیں مسلح نگرانی میں بلکہ فوج کی نگرانی میں گزارا جاتا۔ ایسے لگتا تھا کہ سندھ کو کسی وقت بھی پنجاب سے کاٹا جاسکتا ہے۔ ریل اور سڑک دونوں طرف سے پنجاب جانے والے سب راستے بند کردیئے جائیں تو پنجاب کی سمندر تک رسائی ممکن نہ رہے گی۔ یہی وہ دن تھے جب ہمارے اداروں نے ایم کیو ایم بنانے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ سندھی قوم پرستی کو قابو میں کرنے کے لیے ان کا جواب تلاش کرنا ضروری سمجھا تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے ایسے ایسے اہل سیاست اور اہل فکر و نظر لوگوں کو کالا باغ کی مخالفت میں دلائل دیتے اور دلائل اکٹھے کرتے دیکھا ہے کہ یقین نہ آتا تھا۔ گھر گھر بحث چل رہی تھی‘ ان میں بعض لوگ تو ایک تھنک ٹینک سا بنا کر مل بیٹھتے اور مواد اکٹھا کرتے۔ اگر میں ان لوگوں سے واقف نہ ہوتا تو یہ کہہ اٹھتا کہ یہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں۔ چونکہ میں انہیں جانتا تھا اور جانتا ہوں‘ اس لیے یہی سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خاص پروپیگنڈے کے زیر اثر ایک ذہن بنا بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہوں گے جو کالا باغ کے خلاف فضا پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ وہی ہوں گے جنہیں کہیں پیچھے سے شہہ ملتی ہو‘ وگرنہ حقیقت یہ تھی کہ سندھ بھر میں کالا باغ کو ایک سندھ دشمن منصوبہ گنا جاتا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب گوادر پر کام شروع ہوا اور اسے بلوچستان کے راستے رتو ڈیرو اور وہاں سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ذریعے موٹروے بنانے کی بات کی گئی۔ انڈس ہائی وے کا منصوبہ بنایا گیا۔ کہا گیا کہ اس سے کراچی بندرگاہ پر رش بھی کم ہوگا اور کراچی اور سندھ کی بلیک میلنگ بھی ختم ہوگی۔ مجھے یہ بات کرتے شرم محسوس ہورہی ہے مگر ایسا ہو رہا تھا۔ ایک بڑی لابی ایک طرف وہ پروپیگنڈا کرتی تو دوسری طرف یہ راگنی الاپی جاتی۔ اندرون سندھ ڈاکوئوں کا زور تھا اور کراچی میں مشٹنڈے دندناتے پھرتے تھے۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ ان مشکل حالات میں پنوں عاقل تو بن گیا مگر کالا باغ لٹک گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جونیجو پنوں عاقل کا افتتاح کرنا ٹالتے رہے۔ بالآخر بے نظیر نے اس کی جرأت کی۔ بہرحال جب وفاق میں زرداری صاحب کی حکومت آئی تو ایک پنجابی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف سے اعلان کرایا گیا کہ کالا باغ کو اب قصہ پارینہ سمجھئے۔ اب پنوں عاقل پر کسی کو اعتراض نہیں کیونکہ جب چھائونی بنتی ہے تو اس کے اردگرد ترقی دینے کئی فیوض و برکات لے کر اترتی ہے۔ پنوں عاقل کے ساتھ بھی یہ ہوا۔ کالا باغ بن جاتا تو اس کا سب سے بڑا فائدہ بھی سندھ کو ہوتا مگر سیاست اسی کا نام ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔ آصف زرداری چونکہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا چکے تھے‘ اس لیے مناسب یہی سمجھا گیا کہ کالا باغ کے خلاف ان کے وزیر کے اعلان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا جائے۔ آج خبریں آ رہی ہیں کہ بھارت نے کالا باغ کے خلاف جتنا پیسہ خرچ کیا ہے‘ وہ کالا باغ ڈیم پر اٹھنے والی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ڈیم بن گیا ہوتا تو ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ نہ سیلاب ہمیں قائل کر سکے کہ ایک ڈیم کی فوری ضرورت ہے‘ نہ لوڈشیڈنگ ہمیں بتا سکی کہ ہمیں بجلی پیدا کرنے کے لیے کچھ کرنا ہے۔ نعرے لگاتے جاتے۔ جگہ جگہ‘ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں یا بجلی کے لیے ملک بھر میں بے شمار مقامات ہیں جن پر پن بجلی کے سینکڑوں منصوبے لگائے جا سکتے ہیں مگر یہ سب شیخ چلی کے خواب ہیں۔ مشرف نے اپنے آخری دنوں میں کوشش کی کہ وہ کالا باغ کے حق میں تحریک پیدا کریں مگر انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مشرف بھی ڈر گئے۔ آخر میں پانچ ڈیموں کا اعلان کیا جن میں بھاشا اور کالا باغ بھی شامل تھے۔ کہا گیا کہ یہ پانچوں ڈیم 2016ء تک بن جائیں گے مگر پہلے بھاشا پر کام ہوگا۔ یہ ایک سیاسی بیان تھا اور مشرف کا فرار تھا۔ کالا باغ ڈیم پر تو ابتدائی کام بھی شروع ہو چکا تھا۔ 2005ء میں اسے شروع کیا جاتا تو 2010ء نہ سہی 2012ء تک یہ بن چکا ہوتا۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کو نہ رینٹل پاور کی بدنامی مول لینا پڑتی نہ مسلم لیگ کے انرجی منصوبوں پر کوئی اعتراض ہوتا۔ یہ سب کچھ کالا باغ نہ بننے کی وجہ سے ہوا حتیٰ کہ بھاشا بھی اب ہم اسی لیے بنائیں گے۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں اگر 2025ء تک ڈیم بنانا ناگزیر ہے بصورت دیگر ہمارے گلیشیئر پگھل جائیں گے تو کالا باغ پر اتفاق کرلیجئے۔ یہ جو ہم سیاستدانوں کو ’’مراعات‘‘ دینے کی بات کرتے ہیں تو ایک آدھ ’’رعایت‘‘ ایسی بھی دے ڈالئے کہ کالا باغ بن جائے۔ اب بھی وقت ہے‘ کوئی راستہ نکالئے۔