کل (15 اگست کو ) بھارت نے اپنا 72 واں یوم آزادی منایا لیکن، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے پاکستانیوں اور کشمیری مسلمانوں نے اِسے ’’یوم سیاہ‘‘ (Black Day) کے طور پر منایا۔ دُنیا بھر میں قائم بھارتی سفارت خانوں کے باہر احتجاج کِیا گیا، مقبوضہ کشمیر میں تو کئی مقامات پر بھارتی پرچم (ترنگا ) کو بھی نذر آتش کِیا گیا ۔ کئی بھارتی سیاسی راہنمائوں نے کہا کہ ’’ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے‘‘۔ صدر جناب عارف اُلرحمن علوی، وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان ، وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر خان ، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ، وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ ، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور دیگر اکابرین نے اپنے اپنے مقام پر اور اپنے اپنے انداز میں گیارہ دِن سے محصور، کرفیو اور دوسری پابندیوں ، ضروریات زندگی سے محروم مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند قائدین ، کارکنوں اور عوام کی بھارت سے اظہار یک جہتی کرتے ہُوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور دوسرے حکومتی ارکان کو کھری کھری سنائیں۔ مختلف مقامات پر مختلف تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق میں احتجاجی جلسے منعقد کر کے اور ریلیاں نکال کر اپنا انسانی اور اسلامی فریضہ انجام دِیا۔ ’’سندھ طاس معاہدہ !‘‘ معزز قارئین!۔ اِس موقع پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا ایک اہم پہلو بیان کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔ 19 ستمبر 1960ء کو کراچی میں بھارت کے پہلے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو اور صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے "Indus Water Treaty" (سندھ طاس کے معاہدے) پر دستخط کئے تھے ، جس کے تحت ’’ تین مشرقی دریا‘‘ بیاس، راوی اور ستلج بھارت کے حصّے میں آئے تھے اور ’’مغربی دریا ‘‘ سندھ ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصّے میں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’ پاکستان کے حصّے میں آنے والے دریا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں ، چنانچہ عام طور پر پاکستان کے دریائوں ، سندھ ، چناب اور جہلم پر بھارت کا کنٹرول رہتا ہے ۔ وہ جب چاہتا ہے ہمیں پانی سے محروم کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان دریائوں میں ہماری ضرورت سے زیادہ پانی چھوڑ کر ہمارے شہروں اور دیہات کو ڈبو دیتا ہے ۔ پاکستان میں سیلاب آ جاتا ہے ۔ ’’بھارت کی آبی جنگ!‘‘ کل 15 اگست کو بھارت کے ’’ یوم سیاہ‘‘ پر ہمارے قومی اخبارات میں پاکستان کے "Indus Water Commissioner" سیّد مہر علی شاہ کا یہ بیان شائع ہوا ہے ، جس میں اُنہوں نے کہا کہ ’’ بھارت نے پاکستان کے ساتھ آبی جنگ شروع کردِی ہے ‘‘۔ شاہ صاحب نے کہا کہ ’’ معاہدے کے تحت بھارت یکم جولائی سے 10 اکتوبر تک پیشگی اطلاع دینے کا پابند تھا لیکن، 2014ء کے بعد سے اُس نے پاکستان کو ’’ گنگا پراجیکٹ، کے معائنے کی اجازت نہیں دی‘‘۔ سیّد مہر علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ سندھ طاس کے معاہدے پر عملدرآمد میں بھارت کے عدم تعاون پر مَیں نے وزارتِ امور خارجہ کو آگاہ کردِیا ہے ‘‘ ۔ سیّد مہر علی شاہ صاحب نے مزید کہا کہ ’’ جب بھی ’’ سندھ طاس معاہدے ‘‘ پر عملدرآمد میں تاخیر کے منفی اثرات مرتب ہُوئے۔ اِس معاہدے پر عملدرآمد سے پاکستان کی بقا ہے‘‘ ۔ معلومات کی عدم فراہمی سے پاکستان کی "Food Security" اور زرعی اقتصادیات پر مُضر اثرات ہوں گے، جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا‘‘۔ معزز قارئین!۔ 2011ء میں برطانیہ کے سائنسی جریدہ "The Nature" نے لکھا تھا کہ ’’ اگر بھارت نے "Indus Water Treaty" (سندھ طاس کے معاہدے) کے تحت پاکستان کے حصّے میں آنے والے دریائوں ، سندھ ، چناب اور جہلم پر "Dams" کی تعمیر جاری رکھی تو پاکستان 2020ء تک ریگستان بن جائے گا‘‘۔ اُس سے پہلے امریکی خلائی ادارہ "N.A.S.A" (The National Aeronautics and Space Administration) نے پیش گوئی کی تھی کہ ’’ پاکستان اور بھارت میں آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی‘‘۔ اِس طرح کی صورتِ حال اور پانی کے قحط سے نجات کے لئے ہمارے ماہرین نے ’’ کالا باغ ڈیم‘‘ کی تعمیر کا منصوبہ پیش کِیا اور پھر ہمارے سیاستدانوں نے اُس کی حمایت شروع کردِی لیکن، حیرت ہے کہ اُن سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کی مخالفت شروع کردِی جن ، کے بزرگوں نے (یا خُود اُنہوں نے ) قیام پاکستان اور قائداعظمؒ کی مخالفت کی تھی۔ نومبر 2012ء میں سندھ طاس کونسل کے چیئرمین (ریٹائرڈ انجینئر) جناب محمد سلیمان خان کا تین قسطوں میں ’’ نوائے وقت‘‘ میں ایک مضمون شائع ہُوا تھا جس میں خان صاحب نے لکھا تھا کہ ’’ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فروری 1948ء میں کالا باغ (ضلع میانوالی ) ہائیڈرو پراجیکٹ اور مشرقی پاکستان میں کرنافلی ہائیڈرو پراجیکٹ پر بہت جلد کام کرنے کا حکم دِیا تھا ۔ 29 نومبر 2012ء کو لاہور ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 154کے تحت ’’ مشترکہ مفادات کی کونسل کی1991ء اور 1998ء کی سفارشات کی روشنی میں وفاقی حکومت کو حکم دِیا تھا کہ ’’ وہ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لئے اقدام کرے‘‘۔ حکم میں کہا گیا تھا کہ ’’ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملک کے مفاد میں ہے کیونکہ ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘‘۔ اِس پر یکم دسمبر 2012ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ کالا باغ ڈیم ؟۔ ریفرنڈم کرالیں؟‘‘۔ ’’کالا باغ ‘‘ ڈیم کی تعمیر کے سب سے زیادہ مخالف خان عبداُلولی خان ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو، ہم اُسے بم سے اُڑا دیں گے ‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی لیڈروں کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا‘‘۔ سندھ اسمبلی ، بلوچستان اسمبلی اور صوبہ سرحد اسمبلی میں تو، کالا باغ کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں وزیراعظم نواز شریف اگر چاہتے تو، اپنے اتحادی خان عبداُلولی خان کی خواہش پر صوبہ سرحد کا نام ۔ ’’پختونستان ‘‘ رکھ کر اُنہیں ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ کی مخالفت پر راضی کرسکتے تھے ؟‘‘۔ 7 جون 2018ء کو اسلام آباد میں (اُن دِنوں ) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے (2 اپریل 2018ء کو ) بیرسٹر ظفر اللہ خان کی دائر کردہ درخواست کی بھی سماعت کی تھی۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ ’’ میری درخواست 2013ء سے معرض التواء میں ہے ، جس میں ،میری التماس تھی کہ’’ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ریفرنڈم کرایا جائے؟‘‘ اور اُس کا نام ’’ بے نظیر بھٹو ڈیم ‘‘ رکھا جائے ‘‘۔ اِس پر مجھے بے حد خُوشی ہُوئی اور 9 جون 2018ء کو پھر میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ کالا باغ ڈیم ؔ۔ کی تعمیر پر ۔ ریفرنڈمؔ؟‘‘۔ اُس کے بعد کیا ہُوا؟ مجھے نہیں معلوم؟۔ 5محرم اُلحرام ( 16 ستمبر 2018ء کو ) لاہور میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کے 2رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے ( دوسرے رُکن ) جسٹس اعجاز اُلاحسن کی موجودگی میں ،اپنے ریمارکس میںکہا کہ’’ اگر قوم متفق ہُوئی تو، ہم ’’ دِیا میربھاشا ڈیم‘‘ اور ’’ مہمند ڈیم‘‘ کے بعد ’’ کالا باغ ڈیم ‘‘ بھی بنا دیں گے ۔ اِس پر18 ستمبر کو میرے کالم کا عنوان تھا کہ ’’ کیوں نہ ’۔’ شُہدائے کربلا ؑ ڈیم ‘‘ بنا دِیا جائے؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ 15 اگست کو وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور کئی دوسری پارٹیوں کے قائدین نے ، کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہُوئے ، بھارتی حکومت کی مذّمت کی ہے ، مجھے تو بہت حیرت ہُوئی ، مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ’’ اُن کی ’’رگِ حُبّ اُلوطنی ‘‘ پھڑک اُٹھی ہے اور یقیناوہ چاہیں گے کہ اِس سے پہلے بھارتی وزیراعظم شری مودی پاکستان کے دریائوں ، سندھ ، چناب اور جہلم کا پانی بند کرنے کی کوشش کریں ۔ تو، وہ خود ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر کے بارے میں اپنے روّیے پر نظر ثانی کریں۔ بھارت نے پاکستان سے ’’آبی جنگ ‘‘ تو شروع کردِی ہے تو، کیوں نہ وزیراعظم عمران خان سے کہا جائے کہ ’’ جنابِ والا!۔ ’’ کالا باغ ڈیم ؟۔ ریفرنڈم کرالیں!‘‘۔