آج پھر کالم لکھنے بیٹھا ہوں ، آج پھر جاوید میانداد یاد آ رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے جاوید میانداد صاحب سے فون پر بات ہوئی ، کچھ ان خوابوں کا ذکر ہوا جن کی حدت پلکوں میں لیے وہ بھی نکلے تھے ،عمران خان اور کرکٹ کے نئے ڈھانچے پر جب کافی گفتگو ہو چکی تو انہوں نے خدا حافظ کہنے سے پہلے ایک ایسی بات کہہ دی کہ فون بند ہونے کے بعدمیں کتنی ہی دیر وہیں پتھر بنا بیٹھا رہا۔ کہنے لگے دیکھو آپ کالم لکھتے ہو ، ایک کام کیا کرو۔روز رات سونے سے پہلے اللہ سے معافی ضرور مانگ لیا کرو، کیا پتا کیا کچھ لکھ دیا ہو جو نہ لکھنا ہو اور کیا خبر جو لکھنا ہو اس کو نہ لکھ سکے ہو۔ آدمی جتنی بھی احتیاط کر لے غلطی تو ہو ہی جاتی ہے ۔ دیکھو ایک ایک لفظ جو آپ لکھتے ہو آپ کو اللہ کے ہاں اس کا جواب دینا ہے۔پتا بھی نہیں چلتا اور بہت کچھ غلط ہو جاتا ہے ، انسان بہت کمزور ہے ۔اس سے غلطی ہو جاتی ہے ۔ روز رات سونے سے پہلے اللہ سے معافی مانگ لیا کرو۔معلوم نہیں یہ الفاظ کا فسوں تھا یا جاوید بھائی کے لہجے کا، لیکن اس پر خلوص لہجے میں اتنی گہری بات انہوں نے کہہ دی کہ سکتہ سا طاری ہو گیا۔ میں کتنی ہی دیر وہیں بیٹھا سوچتا رہا کہ جاوید میانداد نے کتنی گہری بات کہہ دی۔ کالم لکھنا ہے اور بیٹھا سوچ رہا ہوںکس پر لکھوں ؟یہ سوال صرف آج دامن سے نہیں لپٹتا ، من میں اکثر یہ سوال ابھرتا ہے اور اور بے بسی کی نائو میں ڈوب جاتا ہے۔ایسا نہیں کہ موضوعات کی کمی ہے، موضوعات تو بہت ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ ان پر لکھنے کو کچھ نہیں،لکھنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ یہ بھی نہیں کہ موضوع ایسا ہے کہ طبیعت مائل نہیں ہوتی ، طبیعت تو مائل ہے اور لب پر لاکھ لاکھ سخن ہیں۔ پھر معاملہ کیا ہے؟ پھر کیسا تامل؟ پھر کیوں نہیں لکھ پاتا ؟ یہ تذبذب کیوں؟ یہ شاید لالہ مادھو رام ہی تھے جنہوں نے کہا تھا : مختار میں اگر ہوں تو مجبور کون ہے۔ یہ درست ہے کہ موضوعات کی یہاں بہتات ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ موضوعات یہاں سمٹتے جا رہے ہیں۔سماج میں تنوع نہیں ، عصبیت اور محاذ آرائی کا آزار اترا ہے۔ہر سو ’’ فالٹ لائنز‘‘ بکھری پڑی ہیں۔ کوئی علم نہیں کب کہاں اور کیسے قلم کسی فالٹ لائن پر آ جائے اور زلزلہ برپا ہو جائے۔ کون جانے کب کہاں کون کسی حرف سے خفا اور آزردہ ہو جائے اور حرف کی روشنائی مدھم ہو جائے۔محترم بارگاہوں کا یہاں انبار لگا ہے کسے معلوم قلم کب کس بارگاہ کی جانب پشت پھیرنے کی بے ادبی اور گستاخی کر بیٹھے ، وابستگی کا طاعون بستی کو لپیٹ میں لے چکا ہے کیا خبر کب کس اعلی حضرت کا مداح کس اعلی حضرات کی عقیدت کی وارفتگی میں آپ کو سینگوں پر لے لے۔ مذہب پر لکھنے لگیں تو اندیشوں سے قلم بھاری ہو جاتا ہے ، امور خارجہ پر دو لفظ لکھنے ہوں تو خود ساختہ توازن کی تلوا ر گردن پر رکھ کر لکھنا پڑتا ہے ، سیاست ، ریاست ، صحافت ، سماج کسی پر بھی بات کرنا ہو ، قلم سے سو اندیشے لپٹ جاتے ہیں۔سوالات ہی سوالات ہیں اور سوالات اٹھیں گے تو ارتقاء ہو گا مگر سوالات اٹھانے سے پہلے ایک سو پانچ مرتبہ سوچنا پڑتا ہے ۔ایسے میں ارتقاء کہاں سے ہو اور اصلاح احوال کیسے ممکن ہو۔مصلحت اور خوف جس سماج کا پیرہن بن جائیں اس کے بدن میں لہو نہیں غلامی دوڑتی ہے۔امر واقع یہ ہے ہمارا سماج یہی پیرہن اوڑھ کر پھر رہا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، یہی مصلحت ، یہی اندیشے اور یہی خوف ہمیں چاٹ گئے ہیں۔حریت فکر اور ارتقاء اب کہاں سے جنم لے۔گھر میں باپ طاقتور ہے وہ بچوں کو اختلاف کا حق نہیں دیتا ، تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کے داروغے ہیں ، محلوں کے اپنے دادا گیر ہیں ، دفاتر میں باس کلچر صرف حکم کے غلاموں اور چاپلوسوں کو پسند کرتا ہے ، شعلہ بیان خطیبوں کو صرف مٹھی کے مادھو درکار ہیں ، مذہبی سیاست نے کارکن کے گلے میں عقیدت ڈال رکھی ہے ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم جتھوں کا مزاج نازک کسی بھی وقت برہم ہو سکتا ہے ۔گنتے جائیے اور جہاں تک ہمت ہے گنتے جائیے۔سانس پھول جائے گی لیکن مصلحت کا یہ سفر ختم نہیں ہو گا۔ لکھنے والا کیا لکھے ؟اس سوال کی معنویت میں روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہی جاوید میانداد والی بات کہ کیا پتا کیا کچھ لکھ دیا ہو جو نہ لکھنا ہو اور کیا خبر جو لکھنا ہو اس کو نہ لکھ سکے ہو۔ لکھنے والا خود احتسابی اور ذمہ داری کے کمال پر بھی پہنچ جائے تو یہی کہہ پائے گا کہ جو نہیں لکھنا تھا وہ اس نے کبھی بھی نہیں لکھا۔ لیکن جو اسے لکھنا تھا کیا وہ اسے لکھ پایا؟ مجھے نہیں معلوم میرے باقی کالم نگار دوستوں کا جواب کیا ہے لیکن میرے لیے اس سوال کا جواب اثبات میں دینا ممکن نہیں۔مجھے یہ بھی علم نہیں جب وہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو کبھی یہ سوال ان کے دامن سے بھی لپٹا کہ انہیں کیا لکھنا چاہیے یا وہ اس اذیت سے بے نیاز ہی رہے۔ انسان بہت کمزور ہے۔ ضمیر کو بیچ کر بازار میں نہ رکھے تب بھی بہت کمزور ہے۔حرف کی حرمت کو پامال نہ کرے تب بھی کمزور ہے۔وہ یہ تو کر سکتا ہے جو نہیں لکھنا چاہیے اسے نہ لکھے۔ لیکن جو لکھنا چاہیے کیا وہ اسے لکھ پاتا ہے؟ شاید ہاں ، شاید ناں۔ ایسے میں ایک ہی راستہ بچتا ہے۔جب رات ہو جائے تو دانشوری کی خلعت اتار کر بے بسی کا پیرہن اوڑھ کر خدا کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا لے کہ یا اللہ جو لکھا اس پر بھی معافی چاہتا ہوں اور جو لکھنا چاہتا تھا لیکن نہیں لکھ سکا اس پر تو بہت زیادہ معافی چاہتا ہوں۔ افتخار عارف بھی کہاں یاد آئے: ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات خواب دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے جو نام بھولنے کا تھا اس ایک نام کو گلی گلی پکارتے رہے ہم اہل اعتبار کتنے بد نصیب لوگ ہیں ٭٭٭٭٭