حضرت ابو بکر الجصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ کاشمار بلندپائے کے مفسرین اورفقہ حنفی کے جلیل القدر علما میں ہوتاہے ۔آپ کا اصل نام ’احمدبن علی‘ کنیت ’ابوبکر‘اورلقب’فخرالدین‘ ہے ۔آپ 305ھ کوفارس(موجودہ ایران) کے مشہور شہر ’ رے (Rey) میں پیداہوئے ۔آپ کی ابتدائی زندگی اپنے آبائی شہر میں ہی گزری اوروہاں کے ریت رواج کے مطابق ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پھر بغداد منتقل ہو گئے جو اس وقت عباسی سلطنت کادارالخلافہ اورتہذیبی، ثقافتی سرگرمیوں اور مختلف علوم وفنون کامرکزتھا۔آپ نے وہاں اس وقت کی عظیم علمی شخصیت ابو الحسن کرخی رحمۃ اللہ علیہ سے اکتساب علم کیا اوران کے خاص اور مقبول شاگردوں میں شمارہونے لگے ۔پھراُنہی کے حکم سے نیشاپور گئے اوروہاں کے جلیل القدر علماسے اکتساب علم کے بعد’اصبہاں‘پہنچے اوروہاں عظیم محدث امام طبرانی،عبداللہ بن جعفراصبہانی اورابوالحق ابراہیم بن علی شیرازی جیسی جلیل القدر علمی شخصیات سے استفادہ کیا۔آپ بیک وقت علمِ تفسیر،علم حدیث اور علمِ فقہ کے ساتھ ساتھ دیگر علوم متداولہ میں مہارت رکھتے تھے اور امام مانے جاتے تھے ۔امام ذہبی نے آپ کا شمارحُفّاظ ِحدیث میں کیاہے اور آپ کے بارے میں لکھاہے کہ آپ امام،مجتہداورمفتی ہیں۔آپ کی تحقیق اور رائے کو ارباب علم ودانش سند سمجھتے تھے ۔آپ نے تدریس، اِفتا اور تالیف وتصنیف کے حوالے سے گراں قدر خدمات پیش کیں ہیں۔آپ نے حدیث اور فقہ کی بہت سی کتابوں کی شرحیں لکھیں ہیں۔اس کتاب میں آپ نے قرآنی آیات کی تفسیر کی بجائے ان آیات کے فقہی احکام بیان فرمائے ہیں اول دلائل د ئیے ہیں۔آپ کی کتب اور علمی دلائل سے آج بھی استفادہ کیاجاتاہے ۔ آپ کاوصال 65برس کی عمر میں370ھ کوبغداد میں ہوا۔آپ کی کتاب’احکام القرآن‘ فقہائے احناف میں خاص طور پر اور بالعموم شافعی،مالکی اورحنبلی فقہا کے نزدیک ایک منفرد مقام کی حامل ہے ۔ذیل میں اس تفسیر کی چند نمایاں خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ٔ٭ ابوبکر جصاص مسلکاًحنفی تھے اس لئے اس تفسیر میں ہمیں فقہی مسائل میں فقہ حنفی کے دلائل کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔٭فقہ حنفی اور فقہ شافعی میں باہم تقابل کے دوران مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ حنفی کو ترجیح دی ہے ۔٭آپ کا اس تفسیر میں اسلوب یہ ہے کہ فہرست میں سورۃ کا نام ذکر کرنے کے بعد اس سورۃ میں جو فقہی احکام پائے جاتے ہیں ان کی ابواب بندی کرتے ہیں۔ فہرست ابواب وفصول ذکر کر تے ہیں۔٭فہرست کے باب میں یا فصل میں کثرت سے ان الفاظ ’’مطلب یا ذکر‘‘کا استعمال کیا گیا ہے ۔ ٭آپ اپنی تفسیر میں آیات کی تشریح کے لئے قرآنی آیات،احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،آثار صحابہ کرام اور تابعین کرام کے ساتھ ساتھ قدیم علما کے اقوال بھی ذکرکرتے ہیں۔٭حضرت امام اعظم ابوحنیفہ،امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال خاص طور پر اپنی اس تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔٭آیات کی تشریح میں آیات قرآنیہ،احادیث نبویہ اور اقوال ائمہ کرام کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی ذکر کرتے ہیں تاکہ عقل کے ساتھ بھی استفادہ ہوسکے ۔٭احکام القرآن میں قرآن مجید کی جن آیات سے براہ راست فقہی مسائل کا استنباط ہوتاہے ان پر بڑی جانفشانی کے ساتھ مفسر نے بحث کی ہے ۔ان آیات کو احکامی آیات یا آیات احکام کہا جاتاہے ۔٭عقلی دلائل کے ذریعے دھریت کی طرف لوگوں کے اعتراض کا تسلی بخش جواب ملتاہے ۔٭سائنس اور فلسفے کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں دیئے گئے ہیں۔٭یہ تفسیر امام جصاص نے چوتھی صدی ہجری کے فقہی مباحث۔قانونی مشکلات اورمسائل کے پس منظر میں تحریر کی۔ اگرچہ ان میں سے بعض مباحث اب موجود نہیں لیکن ان مباحث میں کی جانے والی گفتگو اور پیش کردہ دلائل کی اہمیت اب بھی اپنی جگہ مسلّم ہے ۔٭جس طرح ہر دور کے علما ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتے ہیں جو ان کے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں یا ملحدین اور اہل باطل کی طرف سے شکوک وشبہات سامنے آتے ہیں،بلکل اسی طرح امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے زمانے میں ملحدین اور اہل باطل کی طرف سے وارد ہونے والے اعتراضات کو اپنے دلائل کی روشنی میں رد کیا ہے ۔٭حنفی المسلک ہونے کے باوجود اختلافی مسائل میں بڑے عمدہ اور خوبصورت پیرائے میں مختلف اقوال وآراکا محاکمہ اور تقابل پیش کیا ہے ۔٭شیخ ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی ایک خاص جھلک امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پر نظر آتی ہے ۔آپ نے اپنے شیخ کے اقوال کئی مقامات پر ذکرکئے ہیں۔٭صاحب تصنیف مسائل کے استنباط میں قیاس،عرف اور استحسان کا ذریعہ بھی اختیار کرتے ہیں۔٭تفاسیر کی دیگر کتب میں اسرائیلی روایات کا مفسرین نے التزام کیا ہے لیکن احکام القرآن للجصاص میں صاحب تفسیرنے اسرائیلی اور موضوع روایات کو شامل نہیں کیا۔