وفاقی حکومت نے سماج میں معاشی جدوجہد میں مصروف طبقات کی مدد کے لئے کامیاب پاکستان پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سکیم کے تحت چالیس لاکھ گھرانوں کو مکانات کی تعمیر سے لے کر کاروبار تک کے لئے بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں گے۔وزیر خزانہ شوکت عزیز نے پروگرام وسط جولائی سے لانچ کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ اس پروگرام کے تحت شہریوں کو ہنر سیکھنے‘ ہیلتھ کارڈ اور زرعی منصوبوں کے لئے بلا سود قرضے دیے جا سکیں گے۔وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پروگرام کے اہداف ایک سال میں حاصل نہیں ہوں گے بلکہ مزید مدت درکار ہو گی۔ اس سے یہ گمان بے وجہ نہیں کہ کامیاب پاکستان پروگرام دراصل تحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ انتخابات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا ہے۔ رواں مالی سال میں اس پروگرام کے لئے 300سے لے کر 400ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی و انتظامی سرپرستی سے محروم افراد حکومتی سکیموں میں نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں‘ بے نظیر بھٹو کی پیپلز یوتھ انوسٹمنٹ سکیم ہو یا نواز شریف کی ییلو کیب‘ افلاس زدہ طبقات کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے نام پر جو فنڈز رکھے گئے وہ حکومتوں کے حامیوں کی جیب میں چلے گئے۔ ظلم یہ ہوا کہ بے گھر افراد کو مکانات کی تعمیر کے لئے کام کرنے والے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی حالت پتلی ہو گئی۔ سابق حکومتوں کی ان سکیموں کا انحصار قرض کی رقم کا استعمال درست ہونے پر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی سکیم اپنے اہداف حاصل نہ کر سکی بلکہ حکومت کے لئے شرمندگی کا سکینڈل بن کر رہ گئی۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد نوجوانوں کے لئے آسان قرضوں کا اعلان کیا۔ اس سکیم کے کچھ عرصہ بعد ہی کامیاب جوان سکیم متعارف کرا دی‘ پھر بے گھر افراد کے لئے سستے گھرانوں کا منصوبہ شروع کیا۔ پنجاب حکومت نے الگ سے نوجوانوں کو کاروباری مواقع فراہم کرنے کے لئے منصوبوں کا اعلان کیا۔ یہ سب خوشگوار تھا۔ مدتوں نظر انداز رہنے والے عام شہریوں کو امید بندھی کہ حکومت کی سرپرستی میسر آنے سے روزگار اور کاروبار سے متعلق ان کے مسائل ختم ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اقتدار ملنے پر 50لاکھ بے گھروں کے لئے مکانات تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ سب بروقت شروع ہو جاتا لیکن حکومتی ذمہ دار کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ نے وعدوں کی تکمیل میں تاخیر پیدا کی۔ ضررت سمجھی جا رہی تھی کہ حکومت کی تمام مالیاتی قرضہ و امدادی سکیموں کو کسی ایک بینر تلے جمع کر لیا جائے تاکہ عوامی سطح پر موجود ابہام کا خاتمہ ہو سکے۔ کامیاب پاکستان پروگرام گویا ون ونڈو ہے جہاں حکومت کے اعلان کردہ تمام پروگراموں اور سکیموں کو رواں رکھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کورونا کی وبا نے نچلے اور درمیانے درجے کے کاروبار تباہ کر کے رکھ دیے ہیں۔ڈیڑھ سال کے دوران صورت حال اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے کاروبار فروخت کر رہے ہیں‘ کھانے پینے اور شادی ہالز کا کاروبار ختم ہو کر رہ گیا ہے‘ آرائشی پودوں اور پھولوں کا کام نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے‘ جم‘ بیوٹی پارلر‘ اکیڈمیاں‘ تفریحی کلب وغیرہ آدھی قیمت پر کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔ کاروبار سے آمدن کیا ہو لوگ کرائے‘ بجلی کے بل اور افرادی قوت کے اخراجات پورے کرنے سے عاجز آ چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت نے لاکھوں افراد کی معاونت کا فیصلہ کر کے روزگار کی سہولیات کا تحفظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ جو لوگ کسی سفارش یا رشوت کے بنا قرض لیتے ہیں وہ بروقت واپس کر دیتے ہیں‘ سب سے اچھی شکل’’اخوت‘‘ نے قائم کر کے دکھا دی۔ پہلی حکومتوں نے نوجوانوں اور کاروباری افراد کی مدد کے لئے جو سکیمیں متعارف کرائیں ان کی دستاویزات اور مراحل اس قدر مشکل تھے کہ شاید ہی کسی نے میرٹ پر ان سکیموں سے فائدہ اٹھایا ہو۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ قرض کا مارک اپ جمع ہوا نہ اصل زر واپس ہوئی۔ تحریک انصاف کی امدادی سکیموںکے ساتھ مسئلہ کچھ اور طرح کا ہے۔ ہر سکیم کو کسی دوسری سکیم کے ماتحت کر دیا گیا ہے‘ ایک کام کی منظوری کے لئے اتنا گنجلک سلسلہ رکھا گیا ہے کہ تین سال کے دوران ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی خوش نصیب کو اپنا مکان ملا ہو یا حکومت کے اعلان کردہ کاروبار دوست منصوبے سے مدد ملی ہو۔50لاکھ گھروں کی تعمیر بلا شبہ موجودہ معاشی حالات میں ایک مشکل ہدف ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ اب تک 5ہزار افراد کو بھی اپنی چھت فراہم نہیں کی جا سکی۔ کامیاب پاکستان پروگرام میں ہیلتھ کارڈ سکیم شامل کی جا رہی ہے‘ پنجاب کے بہت سے علاقے اور ہسپتال ہیں جہاں حکومت کے جاری کردہ ہیلتھ کارڈ کو قبول نہیں کیا جا رہا۔ کاروباری لوگ پریشان ہیںکہ مستقبل میں کیا ہو گا‘ بلا سود قرضے نچلی سطح پر معیشت کو متحرک کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ خصوصاً زرعی شعبے کے لئے ایسے قرضے کسان کو آڑھتی اور بیوپاری کے ہاتھوں استحصال سے بچا سکتے ہیں۔ حکومت نے اب تک جتنی سکیمیں اور پروگرام متعارف کرائے ان کی افادیت سے انکار نہیں‘ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر ضروری طور پر طویل اور سمجھ میں نہ آنے والے طریقہ کار نے حکومت کے اچھے ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کو برق رفتاری سے آگے بڑھایا جائے تاکہ حکومت اپنے آخری دو برسوں میں عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکے۔