ہم سب زندگی کی ایک دوڑ میں شامل ہیں۔ اور ہم میں سے ہر شخص اس میراتھن کو جیتنا چاہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم میں سے ہر شخص زندگی میں کامیابی چاہتا ہے۔ وہ طالب علم ہو۔ ڈاکٹر ہو۔ صحافی ہو‘ مزدور ہو‘ ریڑھی بان ہو‘ سیاستدان ہو‘ کوئی دیہاڑی دار ہو‘ آئی ٹی ایکسپرٹ یا پھر گھر کی چار دیواری میں بچوں اور شوہر کی خدمت پر مامور صبح سے شام تک گھر کے دھندوں میں مصروف ایک گھریلو خاتون ہو۔ کامیابی ہم سب کا مطمع نظر ہے۔ ہماری کامیابی اور ناکامی کا معیار مختلف ہو سکتا ہے۔ مثلاً میں نے اپنے کیرئر میں اپنی ایک کولیگ کو دیکھا ان کے نزدیک کامیابی کا معیار بڑی گاڑی اور بڑے گھر سے زیادہ نہیں تھا۔ ان کی کامیابی صرف ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتی تھی۔ جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک کامیابی یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ساتھ ان لوگوں کی زندگیوں میں بھی آسانی بانٹیں جو کم وسیلہ ہیں۔ کامیابی کے اس راستے پر کچھ ہمہ وقت بکنے کو تیار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی قیمت لگوا کر کامیابی کا حصول چاہتے ہیں جبکہ کچھ اصول پسند اس شعر پر کاربند رہتے ہیں کہ: زندگی اتنی غنیمت ہی نہیں جس کے لیے عہدکم ظرف کی ہر بات گوارا کر لوں اور ایسے لوگ اس عہد کی ہر کم ظرفی کے سامنے اپنے اصولوں کا تیشہ اٹھائے ایک مشکل راستے پر جدوجہد کرنے کو بھی حقیقی کامیابی گردانتے ہیں۔ بہرحال کامیابی ہر انسان کے لیے ایک الگ معنی رکھتی ہے۔ جو کردار بھی زندگی نے انسان کو سونپا ہے اس کو بہترین انداز میں ادا کرنا ہی کامیابی ہے۔ ایک طالب علم کے لیے کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی پڑھائی کو مکمل توجہ دے اور اس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرے لیکن ایک طالب علم جو دن کے 18گھنٹے کتابی کیڑا بنا رہے اور اسے جسمانی ورزش اور کھیل کود کا وقت ہی نہ ملے میرے نزدیک ہرگزکامیاب طالب علم نہیں ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ میٹرک اور ایف ایس سی کے بچے نمبروں کی دوڑ میں اس طرح اندھا دھند بھاگ رہے ہوتے ہیں کہ اس عمر میں انہیں جس طرح زندگی کو متوازن کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے وہ نہیں سیکھ پاتے۔ مثلاً پڑھائی کے ساتھ جسمانی ورزش‘ صبح کی سیر‘ کھیل کے ساتھ وابستگی اور نصابی کتابوں کے علاوہ اخبار یا دوسری غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کے لیے وقت نکالنا۔ اگر کوئی طالب علم اس طرح اپنی زندگی میں توازن پیدا کرتا ہے تو وہ آئندہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہی رہے گا۔والدین کی حیثیت سے کامیابی کا معیار یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ ہمارے یہاں لفظ تعلیم کو تربیت سے الگ کر دیا جاتا ہے اور سارا زور صرف تعلیم پر دیا جاتا ہے۔جبکہ تربیت ایک پورا جہان ہے جسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تربیت آسان سے الفاظ میں زندگی بہتر اور حوصلہ مند انداز میں گزارنے کا ہنر سکھانا ہے۔ زندگی برداشت‘ حوصلے ‘ عزم‘ مستقل مزاجی‘ ناکامی کو قبول کر کے آگے بڑھنے‘ معاف کرنے‘ شکر گزار ہونے‘ نعمتوں کی قدر کرنے‘ وقت کی بہتر تنظیم سازی‘ ترجیحات کو طے کرنے‘ سستی‘ کاہلی‘ کامیابی کے دشمن کو شکست دینے اور ہمہ وقت پر امید رہنے کا نام ہے۔ اپنے بچوں کو صرف اور صرف کامیابیوں‘ خوشیوں اور ہر محاذ پر فتح کی تصویر دکھانے والے والدین بھول جاتے ہیں کہ ناکامی شکست اور دکھ انسانی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک مضبوط انسان کی زندگی جئیں تو ان کا تعلق اللہ اور اس کے آخری رسولﷺ سے مضبوط بنائیں۔ میں روایتی تعلق کی بات نہیں کر رہی۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے وابستگی لاشعوری نہیں۔ شعوری ہونی چاہیے۔ اپنی زندگی کے ہر نفع و نقصان ہر رنج و غم کامیابی اور ناکامی کو اسی پیمانے پر پرکھیں۔ اور جانچیں بہت ساری الجھنیں خود بخود دور ہو جائیں گی اور کامیابی کیا ہے اس کا تصور زیادہ نکھر کر آپ کے سامنے آ جائے گا۔ میرے نزدیک ایک کامیاب زندگی کا تصور یہ ہے کہ اپنے وقت کی قدر کی جائے‘ وقت کی قدر کرنا دراصل زندگی کی نعمت کی قدر کرنا ہے۔ جس لمحۂ موجود میں ہم آج زندہ ہیں وہی زندگی ہے۔ اس کو بہتر انداز میں گزار لیں تو سمجھیں ہم نے اپنا ماضی‘ حال اور مستقبل سب اچھا کر لیا۔ خیالات ‘ خوابوں ‘ خدشوں ‘ وہموں اور وسوسوں کی دنیا سے نکل کر لمحہ موجود کو جینا شروع کریں۔ جب وقت کے صحیح استعمال اور اس کی قدر کرنے کی بات کرتے ہیں تو میرا ذہن فوراً ہی سوشل میڈیا کی طرف چلا جاتا ہے جو اس وقت ہماری زندگیوں پر اس قدر حاوی ہو چکا ہے کہ اس کی رنگا رنگ بھول بھلیوں میں کھو کر ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم اپنا کتنا سنہرا وقت بس یونہی کھو چکے ہیں۔ بہتر زندگی گزارنے کے لیے اس کی ایک حد مقرر کرنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کب کتنا اور کس وقت استعمال کیا جائے۔ اور اس طرح استعمال کیا جائے کہ ہم اپنی حقیقی زندگیوں کو اپنے وقت کا 80فیصد دیں۔ اپنے آس پاس کے رشتوں کو مضبوط بنائیں ‘ رشتہ داروں‘ دوستوں ‘ ہمسائیوں کی خبر گیری کریں۔ وقت نکال کر ان سے ملیں۔ انجان لوگوں کی پوسٹوں پر سٹے بلیسڈ HBP اور RIPلکھ کر اپنا وقت خوامخواہ کی سرگرمی میں برباد نہ کریں۔کامیاب افراد ہمیشہ کوشش کرتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ خواہ نتائج کچھ بھی ہوں۔ مجھے ایک بزرگ کی کہی ہوئی بات یاد آ رہی ہے کہیں پڑھی تھی مگر دل کو بہت لگی۔ کسی نوجوان نے بزرگ سے پوچھا کہ کوشش کرنا ہم پر کس حد تک فرض ہے بزرگ نے جواب دیا اگر تمہیں نتائج کا اندازہ بھی ہو کہ یہ کوشش ثمر بار نہیں ہو گی پھر بھی کوشش کرنا تم پر فرض ہے۔ لفظ کوشش میں زندگی کا سارا فلسفہ موجود ہے۔ کیونکہ کوشش کے ساتھ ہی امید اور یقین وابستہ ہے اور اسی امید کی سرزمین پر خواب پنپتے ہیں۔ زندگی کی ساری دوڑ دھوپ اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہیجو لوگ زندگی میں زیادہ کام کرتے ہیں یا پھر کئی جہتوں میں کام کرتے ہیں وہ اپنے وقت کو منظم کر کے جیتے ہیں۔ ان کی ٹائم مینجمنٹ سکل کمال کی ہوتی ہے۔ شہرہ آفاق شاعر اور فلسفی ٹیگور نے اپنی اسی سالہ زندگی کے دس برس شدید بیماری میں گزارے لیکن اسکے باوجود اتنا کام کیا اور اتنے متنوع انداز میں کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ علی الصبح بیدار ہوتے اور اپنے کاموں کی ترجیحی فہرست کے مطابق اپنا دن گزارتے۔ یوں ٹیگور نے اتنا کام کیا کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ وقت آپ کی زندگی میں سب سے اہم کرنسی ہے۔ کوشش کریں کہ اس قیمتی کرنسی کو آپ خود استعمال کریں کہیں کوئی دوسرا اسے فضول خرچی میں ضائع نہ کر دے اور آخری بات۔ Use Time Wisely. Time is What We Want Most, but What we use Worst.