جمعۃ المبارک کو میاں نواز شریف صاحب وطن واپس آ گئے۔ اُن کا اپنا وطن ہے نت نت آئو جم جم آئو، جی آیاں نوں۔ مگر ہر باشعور پاکستانی حیران ہے کہ وہ میاں صاحب کا استقبال کیوں کرے؟ وطن واپسی سے پہلے انہوں نے جو کچھ وطن کے بارے میں کہا وہ کبھی کوئی محب وطن شخص نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے اپنے ہی ملکی اداروں کے بارے میں ایک بیگانی سرزمین پر بہت زہر اگلا۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے جب کبھی یورپ و امریکہ وغیرہ کے سفر کے دوران لوگ چبھتے ہوئے سوالات کرتے تو مولانا جواباً کہا کرتے کہ میں ملکی مسائل و معاملات اور اختلافات کی گٹھڑی باندھ کر پاکستان ہی چھوڑ آیا ہوں واپس جا کر وصول کر لوں گا۔ آج کل انٹرنیٹ اور چینلز کی وجہ سے پردیس میں بھی دیس کی پل پل کی خبریں مل جاتی ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے اس کے باوجود اکثر لیڈر جب کبھی بیرون ملک جاتے ہیں اور سمندر پار پاکستانی ان سے وطن کے حالات دریافت کرتے ہیں تو وہ بالعموم تصویر کا مثبت رخ دکھاتے اور مستقبل کے بارے میں امید افزاء باتیں کرتے ہیں مگر بدھ کے روز تو میاں صاحب نے حد کر دی اور جمہوری پاکستان کی ایک تاریک تصویر پیش کی جو حقیقت حال کے بالکل برعکس تھی۔ میاں صاحب نے کہا کہ پاکستان ایک بڑی جیل ہے۔ میاں صاحب کو معلوم نہیں کہ جیل کیا ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان آزادیٔ تحریر و تقریر اور آزادیٔ اجتماع و احتجاج کے اعتبار سے ساری اسلامی دنیا سے آگے ہے بلکہ بعض اعتبارات سے تو یہاں کے میڈیا کو یورپ و امریکہ سے بڑھ کر آزادی حاصل ہے۔ میاں صاحب کے کئی متوالے انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو بے نظیر بھٹو سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک فوجی آمر کے دور میں کوچۂ اقتدار سے نکلے یا نکال دیئے گئے اور اس کے بعد انہوں نے مزاحمتی انداز میں انتخابی مہم چلائی اور 1970ء کے انتخاب کے لیے انہوں نے کھمبوں کو بھی ٹکٹ دیئے اور لوگوں نے جئے بھٹو کہتے ہوئے انہیں ووٹ دیئے۔ پیپلزپارٹی ایک نظریاتی و انقلابی جماعت تھی اور اس کے پاس بہت بڑی سٹریٹ پاور تھی۔ اگرچہ پیپلزپارٹی 1977ء تک پہنچتے پہنچتے اپنا انقلابی چولا اتار چکی تھی اور اپنے جمہوری راستے سے ہٹ چکی تھی مگر اس کے باوجود جب ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ نے ایک قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی تو پاکستان کے مختلف شہروں میں کافی احتجاج ہوا۔ بعد ازاں ان کے کارکنوں کو جیلوں، کوڑوں اور جلاوطنی کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ان مصائب کو جیالوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مسلم لیگ(ن) نہ نظریاتی، نہ انقلابی اور نہ ہی جمہوری جماعت ہے۔ اس لئے اس کے ارکان و کارکنان چوری کھانے والے مجنوں ہیں جو کسی طرح کی قربانی دینے والے نہیں۔ ان کے قائدین بھی ایک ایسی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کا عوام اور کارکنان کے ساتھ کوئی دلی اور قلبی رشتہ اور رابطہ نہیں… میاں نواز شریف ایک فوجی سیٹ اپ کے ذریعے پنجاب کی حکومت میں ڈائریکٹ وزیر خزانہ بھرتی ہوئے اور پھر فوجی کندھوں کو بدلتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم بن گئے۔ قسمت کے دھنی نواز شریف کو قدرت نے ایک کے بعد ایک موقع دیا مگر انہوں نے عوام کی حالت بدلنے کے بجائے اپنے خاندان کے لئے دولت کے انبار جمع کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ دولت، شہرت اور جاہ و جلال کی خواہش تو شاید ہر انسان میں ہوتی ہے مگر جب یہ خواہش ہوس بن جاتی ہے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ میاں صاحب کے دوست اور خیر خواہ ان سے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ خود طلب کردہ جلاوطنی کے بعد وطن آ کر تجارت کو خیرباد کہہ دیں گے اور خدمت خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور توشۂ آخرت بنا لیں گے اور چھن جانے کے بعد دوبارہ مل جانے والے اقتدار پر خالقِ ارض و سما کا شکر ادا کریں گے۔ شکر ادا کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ خلق خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے مگر دوبارہ برسرِاقتدار آ کر تو میاں صاحب او رشریف فیملی نے اقتدار سے دوری کے عرصے کی بھی کسر نکالی اور پہلے سے کہیں بڑھ کر ہوس جاہ و مال کا مظاہرہ کیا۔ مریم بی بی میاں نواز شریف کو اس تصادم تک پہنچانے والے دوچار مشیروں میں پیش پیش تھیں۔ وہ خود کو شعوری اور لا شعوری طور پر بے نظیر بھٹو کے مقام پر دیکھ رہی تھیں۔ ان کے لبرل اتالیق نے انہیں کچھ اشعار اور دوچار تقاریر رٹا دی تھیں مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ نظریاتی اور انقلابی جماعتوں کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ نیز اس کے لیڈروں کو ضبطِ نفس اور خدمت خلق کا زادِ راہ ساتھ لینا پڑتا ہے۔ زبردست عوامی جدوجہدکے ذریعے کارکنوں کے اندر نظریے اور انقلاب کی روح پھونکنا پڑتی ہے۔ بے نظیر بھٹو ہارورڈ اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی صدر بھی تھیں۔ بھٹو کو جب جنرل ضیاء الحق کے فوجی انقلاب نے اقتدار سے الگ کیا تو بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آ گئیں۔ پھر 1979ء میں بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اتنے صدموں اور مصائب کے باوجود بے نظیر بھٹو نے بحالی جمہوریت کے لئے زبردست جدوجہد کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں وہ قید وبند کی صعوبتیں ہمت و حوصلے سے برداشت کرتی رہیں۔ پھر انہیں 1984ء میں برطانیہ جلاوطن کر دیا گیا۔ برطانیہ میں بھی بے نظیر بے شمار مشکلات کا شکار رہیں۔ انہیں ذرم و چشم کی فوج ظفر موج حاصل نہ تھی۔ ان حالات میں جب وہ آٹھ نو برس کی جلاوطنی کے بعد 10اپریل 1986ء کو لاہور آئیں تو فی الواقع ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ اسی زمانے میں ان کے بارے میں حبیب جالب نے یادگار اشعار کہے تھے۔ چند روز پیشتر مریم نواز جالب صاحب کا ایک شعر دوہرا رہی تھیں مگر اس بات سے آشنا نہ تھیں کہ اس شعر کا پس منظر کیا تھا۔ جالب صاحب کا شعر کچھ یوں تھا ؎ بندوقوں والے ڈرتے ہیں اک نہتی لڑکی سے مریم نواز کا کوئی نظریاتی و انقلابی پس منظر نہیں۔ اُن کا ایجنڈا مکمل اختیارات اور فل پروٹوکول کے ساتھ حصول اقتدار ہے۔ وہ اپنے آپ کو شریف فیملی کے تخت و تاج کا وارث سمجھتی ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ شریف فیملی حکمرانی کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے اور اب اقتدار میاں نواز شریف کی اولاد کی میراث ہے۔ وہ سیاہ کریں سفید کریں کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہو، عدلیہ، انتظامیہ اسٹیبلشمنٹ سب ان کے زیر نگیں ہوں۔ میاں نواز شریف پارٹی کو تصادم سے بچا سکتے تھے۔ وہ پارٹی کے لئے اقتدار بچا سکتے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں کے بعد انہیں اپنے ہاتھوں پارٹی کی قیادت خوش دلی سے اپنے بھائی کے سپرد کر کے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا اور پارٹی کو صرف اپنی بیٹی کی میراث بنانے سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ اور ڈیڑھ دو برس کے لیے حکمرانی کو بھول کر عدلیہ سے اپنی برأت کے لئے قانونی تگ و دو کرنی چاہئے تھی۔ مگر میاں نواز شریف یہ حکیمانہ اور سمجھدارانہ فیصلہ نہ کر سکے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا اقتدار کے ساتھ وہی رشتہ ہے جو مچھلی کا پانی کے ساتھ۔ جیسے مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح بڑے میاں صاحب اقتدار کے بغیر بے چین و بے قرار رہتے ہیں۔ بات سمجھنے کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ میاں نواز شریف کا اصل ہدف عوام کی حاکمیت اور سول بالادستی ہے چاہے سول حکمران کوئی بھی ہو۔ کیا ان کا سیاسی رویہ اور سیاسی کلچر ان کے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے ہرگز نہیں۔ اگر فی الحقیقت وہ عوام کی حاکمیت کے علمبردار ہوتے اور ووٹ کو عزت دینے پر دل و جان سے یقین رکھتے تو کیا باربار اقتدار میں آ کر وہ مغلیہ خاندان والی بادشاہی اختیار کرتے۔ جو پارٹیاں عوام کی حاکمیت چاہتی ہیں کیا ان کے یہی شاہانہ انداز ہوتے ہیں۔ مثلاًً پاکستان میں جماعت اسلامی عوام کی حاکمیت کی علمبردار ہے۔ وہ ہر طرح سے عوام کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے۔ ان کے ہاں شہری، ضلعی، صوبائی اور مرکزی مشاورت کا ایک انتہائی مؤثر نظام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں احتساب کا ایک شدید نظام قائم ہے۔ لہٰذا شہری قیادت سے لے کر امیر جماعت اسلامی تک سبھی جوابدہ ہیں اور کوئی جواب سے مبرا نہیں۔ میاں صاحب اپنی پارٹی کے اندر کسی احتساب یا سوال و جواب کے قائل نہیں۔ کسی کی مجال ہے کہ وہ ان سے سوال کی جرأت کر سکے۔ کابینہ کا اجلاس وہ نہیں بلاتے کبھی چھ ماہ کے بعد دل چاہا تو کوئی اجلاس بلا لیا۔ ورنہ یہ کوئی ضروری کام نہ تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے آنا تو دور کی بات وہ شاذونادر ہی آتے اور سوالوں کے جوابات دینے کی زحمت بھی نہ فرماتے۔ جمعۃ المبارک 13جولائی کو شام 4بجے تک لاہور میں ہر شے نارمل رہی اور معمول کے مطابق شہری اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ لاہور میں کسی استقبال کے لئے کوئی ہلچل یا جوش و خروش کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ نہ کوئی خلائی مخلاق آئی اور نہ ہی ایسا کچھ نظر آیا کہ داتا دربار سے لے کر ایئر پورٹ تک تل دھرنے کی جگہ نہ ہو اور تاحد نظر انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے ہوں۔ ایسا کوئی منظر نامہ قطعاً نہیں ہوا۔ نواز شریف اینڈ فیملی نے جو بویا ہے وہی کاٹا۔ ان حکمرانوں نے اپنے عوام کو نہ اپنے کارکنوں کو کچھ دیا اور نہ ہی اپنے لیڈروں کو عزت و احترام دیا۔ اس لئے کسی بڑے استقبال کی کوئی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں کہ نگران حکومت کے ایما پر صوبائی بیورو کریسی نے استقبالیوں کو کیوں روکا ہے۔ راستہ روکا گیا یا نہیں۔ جولائی کی گرمی میں سابق حکمرانوں کی خاطر کس نے نکلنا تھا۔اس دوران کنفیوژن پیدا کر کے میاں نواز شریف اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم اپنے ہاتھوں برباد کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کا استقبال ہوا یا نہیں ہوا؟ اس کا مسلم لیگ(ن) کی انتخابی کامیاب پر مطلقاً کوئی اثر نہیں پڑا۔ عوام بھی بڑے سمجھدار ہو چکے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ میاں صاحب چاہتے ہیں کہ انہیں من مانی کی، کرپشن کی دستوری تقاضوں کو پامال کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ سارا پس منظر موجودہ منظر دیکھ کر اور پیش منظر کا اندازہ لگا کر مجھے یقین ہے کہ ایک بار پھر میاں صاحب سے اندازے اور تخمینے کی غلطی ہو گئی ہے۔ جیسے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں ایک بار لندن سے میاں صاحب کے آنے پر کوئی نہ نکلا تھا۔ اسی طرح کل بھی کوئی استقبال کے لئے نہیں نکلا۔ اس لئے میاں صاحب کے حصے میں کامیابی آئی نہ تصادم آیا۔