بلاول بھٹو زرداری، ہماری سیاست کا وہ کردار ہے، جس نے کچھ عرصے سے اپنے بیانات، بھڑکیلے لہجے اور لچکیلے اسلوب سے ہماری رُوکھی پھیکی، سادہ، سپاٹ سیاست کو طراوت، حلاوت اور بشاشت عطا کر رکھی ہے۔ پاکستانی سیاست کے اس ٹھہرے تالاب میں پہلی ہلچل توان کے زندہ، تابندہ، درخشندہ نام سے مچی تھی، جو بہت سے حاسدوںاور روایت پرستوں کو آج تک ہضم نہیں ہوا۔ اس کثیر المقاصد، فقید المثال، عدیم النظیر نام کو ترتیب دینے میں ان کے والدِ محترم نے جس ذہانت، دانائی، ہنر مندی، مستقبل شناسی اور لازوال فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا، اس کی بہت سی داد وہ مختلف حلقوں اور ہلکوں سے متعدد بار وصول کر چکے ہیں اور تب تک کرتے رہیں گے، جب تک چانکیہ اور اچانکیہ سیاست کی تاریخ لکھی جاتی رہے گی۔ یہ طلسماتی اسم ان لوگوں کے منھ پہ طمانچے کا درجہ رکھتا ہے، جو بلا سوچے سمجھے فرما دیتے ہیں کہ ’’ نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ بیس سال قبل مَیں نے ’’اُردو نثر میں طنز و مزاح‘‘ کے موضوع پر پی ایچ۔ڈی کا تفصیلی مقالہ تحریر کیا تو بہت پذیرائی ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی نے ڈگری دی، کتاب سرائے، لاہور اور ایجوکیشنل پبلشنگ، دہلی نے اہتمام سے چھاپا، درجن بھر جامعات نے نصاب میں شامل کیا۔ 2007ء میں ’’منٹو اور مزاح‘‘ مکمل کی تو بھی سرحد کے دونوں طرف ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اب چونکہ ادب میں مزاح کا توڑا ہے۔ جو چند دانے تھے، ان میں سے بعض تو منقار زیرِ پر ہیں، اور کچھ نے مرضی کے سیاست دانوں کی ’سیپ‘ کر رکھی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے کامیڈی شوز میں پھیکی جُگتوں اور تیکھی بے ہود گی کا راج ہے۔ایسے میں اب ہماری ساری توجہ پاکستانی سیاست پہ مرکوز ہوئی جاتی ہے۔ اگرچہ دو دہائیاں قبل محترم حسین کاشف نے ’’ پاکستان کی مزاحیہ سیاسی تاریخ‘‘ کے عنوان سے با کمال کتاب لکھی تھی لیکن اس کے بعد بھی اس شعبے میں متعدد ایسے کھلکھلاتے اسلوب اورچمچماتے محبوب در آئے ہیں کہ ان کی شگفتہ حرکات اور نَو رُستہ سکنات کا جی جان سے نوٹس لینا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ’پاکستانی سیاست میں طنز و مزاح کے رنگا رنگ اسالیب‘ کے عنوان سے ضخیم کتاب رقم کی جائے۔ یقین جانیں جب سے پاکستان کی اصلی تے وڈی جمہوریت میں نیا موروثی خون شامل ہوا ہے، رونق سی لگ گئی ہے۔ جلسوں میں شگوفے برستے ہیں۔ پریس کانفرنسیںپیٹ پکڑ کے سننا پڑتی ہیں۔ جب پاکستانی سیاست کا ایک انوکھا لاڈلا کہ جس کی حرکات و سکنات میں پُتلی کے دھاگے صاف دکھائی دے رہے ہوتے ہیں، ستر ستر سال کے فرماں بردار غلاموں کے درمیان لہک لہک کے اپنے اینگلولوکل اسلوب میں عمران خان کو ’کٹھ پُتلی‘ اور ’سلیکٹڈ‘ کہتا ہے۔ ایک خاتون دس لاکھ کا لباس، چھے لاکھ کا پرس، پانچ لاکھ کا جوتا پہن کے مہنگے ترین میک اپ کے اندر سے پاکستان کے غریبوں کے لیے دُکھی ہو ہوجاتی ہیں۔ جب دانش وریں وطنِ عزیز کے مستقبل کے لیے پریشان ہو رہی ہوتی ہیں۔ جب ایک مولانا اداروں کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں… جب جماعت اسلامی ایک طرف پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر، دوسری طرف ان کو اسلام کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے …جب بزرگوار پانچ سال بلا شرکتِ ایرے غیرے پاکستان کے صدر رہنے کے بعد بی بی کے قاتلوں کا پتہ نہ چلنے کی شکایت کرتے ہیں… جب ہر ادارے کے ریکارڈ کی اَگ بال کے سیکنے والوں کا مہنگائی کی وجہ سے عوام کے لیے دل جلتا ہے تو ہمارا دل اس درد مندی پر پھوٹ پھوٹ کے ہنستا ہے۔ ویسے تو بھٹو، ضیا، مشرف، نواز، شہباز، زرداری، بے نظیر کی زبان پھسلن کے بے شمار واقعات صحافتی ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن کچھ عرصے سے جو شہرت و مقبولیت عزیزی بلاول کے بعض بیانات کو حاصل ہوئی ہے، وہ یقینا تاریخ ساز ہے۔ ابھی تو بارشوں میں کم پانی اور زیادہ پانی والی دانش کی بازگشت ماند نہیں پڑی تھی کہ حال ہی میں ’’کانپیں ٹانگنے‘‘ کی اچھوتی ترکیب نے ہر طرف دھوم مچا دی ہے۔ ماہرینِ لسانیات اس لسانی تجربے پر دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ جملہ آج کل سوشل میڈیا کا سب سے لاڈلا بچہ ہے۔ شگفتہ بیانی کی ایسی پذیرائی پر مزاح نگار رشک کناں ہیں۔ کئی لوگ اس اسلوب کو کاپی کرنے کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ کہیں سے آواز آتی ہے: جو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں وہ اکثر رانگ جاتی ہیں کوئی ظریف پکارتا ہے: ارادہ روز کرتی ہوں کہ ان سے حالِ دل کہہ دوں مگر وہ سامنے آئے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ایک شاعر دوست نے شتاب لکھا: کبھی کبھار میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں ایک بڑے مشاعرے میں کلام سناؤں، جہاں لوگوں کا ایسا ہی جمِ غفیر ہو، میرے اشعار ایسے جاندار ہوں کہ مجمع عش عش کر اُٹھے، لوگ فرطِ جذبات سے بے قابو ہو کر کپڑے پھاڑ ڈالیں، سینہ پیٹ لیں، سامعین دھاڑیں مار مار کے ہنسیں اور کھلکھلا کے روئیں… مطلب یہ کہ غضب قسم کی داد دیں… لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اتنے لوگ دیکھ اگر میری کانپیں ٹانگ گئیں تو میرا کیا بنے گا یاڑڑڑڑڑڑ؟ سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں تیری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں تِری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے تِرے غم میں سلگتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں مَیں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جوں ہی قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں کسی اصلی نسلی نے سیاسی پارٹی چھوڑ جانے والے ایک فصلی سیاست دان سے متعلق جملہ کسا: ’’تمھیں کھو کر اندازہ ہوا کہ جب تمھیں پانے والوں کی کانپیں ٹانگیں گی تو وہ کتنا پچھتائیں گے۔‘‘ کسی نے اس تاریخی جملے کے حوالے سے زرداری صاحب کا قول یوں نقل کیا ہے: ’’ ہم ایسی کانپیں رکھتے ہی نہیں جو ٹانگیں۔‘‘ کوئی من چلا پکارا: وطن کو لُوٹ کے کھا جائے، یہ میرے باپ کا حق ہے غریب آلو بھی کھاتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں ایسے میں ہمیں ان اصیل حمایتیوں پہ بہت رشک آیا جو سوشل میڈیا پہ اپنے اس سیاسی ہیرو کے لیے باقاعدہ بیانِ صفائی مرتب کرتے پائے گئے۔ ہمارے ایک وکیل دوست تو پرچہ برابر کرانے کے لیے عمران خان کے لسانی لغزش کے کلپ بھی ڈھونڈ لائے۔ ایسے مہربانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ کی وفا داری اپنی جگہ لیکن دوستو! یہ سال ہا سال سے ہنسی، خوشی، مسکراہٹ، قہقہے کو ترسی ہوئی قوم ہے۔ یہ اگر کسی سیاست دان، کھلاڑی یا فن کار کی ذرا سی پھسلن سے دل پشوری کر رہی ہے تو زیادہ لہوری بننے کی ضرورت نہیں۔ اس قوم کو آپ کی تشریح سے زیادہ، کسی بھی شکل میں میسر آنے والی تفریح کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس عظیم جمہوری لیڈر کے بچگانہ سیاسی سٹائل کی وجہ سے آپ کی کانپیں ٹانگ رہی ہوں؟