وہ لائل پور سے آیا تھا ،تعلق تھا لوئر مڈل کلاس گھرانے سے، کوئی ڈگری ہولڈر تو نہیں تھا لیکن بہت واضع سوچ تھی اسکی،کہتا تھاجاگیردارانہ،سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، آپ اسے ایک کمیونسٹ دانشور کہہ سکتے ہیں ، لاہور میں منزل ڈھونڈتا ڈھونڈتا فلم نگر پہنچ گیا، اور کیفی صاحب کا اسسٹنٹ بن گیا ، شاید یہ وہ دور تھا جب وارث شاہ کے بعد بھٹیوں کی دوسری فلم منہہ زور بن رہی تھی،پتہ نہیں کب تک اس نے یہ مزدوری کی، تنخواہ تو ہوتی نہیں ان کاموں میں، روٹی بھی مانگ تانگ کر کھانا پڑتی ہے ، پھر کئی سال بعد بھٹی برادران کی تاریخ ساز فلم ظلم دا بدلہ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کامصنف حفیظ احمد تھا، یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی جس میں کہیں کوئی کمپرومائز نہیں تھا، اینٹ کا جواب پتھر سے، عالیہ نے بہت خوبصورت کردار نگاری کی تھی اس میں، فلم سو ہفتوں سے زیادہ چلی، لگتا تھا پاکستان کے سارے سینما ہاؤسز میں ایک ہی فلم چل رہی ہے۔ بھٹی برادران پر دھن برس رہا تھا، نوٹ بوریوں میں بھر کر بنکوں میں لے جائے جا رہے تھے۔ کئی سال بعد یہ مقام صرف سرور بھٹی کی فلم ’’مولا جٹ‘‘ کو نصیب ہوا ، ’’ظلم دا بدلہ‘‘ نے حفیظ احمد کو ادبی حلقوں میں محترم بنا دیا، اس سے مضامین پڑھوائے جاتے، مجلسوں کی صدارت کرائی جاتی، وہ بحث مباحثوں میں بھی نمایاں نظر آنے لگا، پھر اس نے بھٹی برادران کے لئے ’’دھرتی دے لال‘‘ سمیت کئی اور کامیاب فلمیں لکھیں ، یہ انتہائی عجیب بات تھی کہ شہرت تو اسے بہت ملی، لیکن دولت کی دیوی اس پر مہربان نظر نہیں آ رہی تھی ، جب ’’مولا جٹ‘‘ جٹ ہوئی تو ہر فلم ساز نے رائٹر ناصر ادیب کے دروازے پر ڈیرے ڈال دئیے تھے ، لیکن جب ’’ظلم دا بدلہ‘‘ نے ریکارڈ توڑے تو حفیظ احمد صرف بھٹی برادران کے لئے ہی لکھ رہا تھا، شاید اس کے لئے اس پر بھٹیوں کا کوئی دباؤ ہو ، لیکن میں یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے کبھی حفیظ سے اس بارے میں پوچھا ہی نہیں، شہرت ملنے کے بعد حفیظ نے فلم اسٹوڈیوز کے سامنے سید پور میں ایک کمرے کا کوارٹر کرائے پر لے لیا، وہ ابھی غیر شادی شدہ تھا، ہر رات اس کے کئی دوست وہاں آ جاتے اور خوب محفل جمتی، پھر ایک دن اس کی شادی ہو گئی، اس کے سسرالی سمن آباد موڑ سے تھوڑا آگے رہتے تھے ، حفیظ نے بھی قریب ہی کرائے پر گھر لے لیا، بھابی جی نہایت ہی اچھی خاتون تھیں، کسی اسکول میں ٹیچنگ کررہی تھیں ، پھر اس کے گھر میں پہلے بیٹے ٹیپو کی پیدائش ہوئی ، حفیظ نے مجھے کہا کہ اسے تم جیسا صحافی بناؤں گا، پھر اس کی زندگی میں ٹیپو صحافی بنا بھی، کچھ عرصے بعد اس نے ایک دور دراز نئی آبادی میں اپنا مکان لیا تو ہم سب دوست وہ گھر دیکھنے بھی گئے تھے۔ 70 کی دہائی میں حفیظ احمد کو ایک فنانسر مل گیا، یونس پہلوان ، وہ لاہور کا ایک کن ٹٹا تھا،، حفیظ نے اپنی ڈائرکشن میں پنجابی فلم شروع کردی،’’ گنگو پتر ماں دا‘‘ یہ ایک ایسے بچے کی کہانی تھی ، جس کا کوئی باپ نہیں تھا، ولدیت کا خانہ خالی تھا، یوسف خان نے یہ کردار ادا کیا، فلم کا فنانسر پہلوان کوئی کھلے دل کا آدمی نہیں تھا،شوٹنگ کے لئے اس سے پیسے نکلوانا بہت مشکل ہوتا، بہر حال فلم مکمل ہوگئی اور فل فلاپ رہی، میں بھی دیکھنے گیا تھا وہ فلاپ ہونے والی ہی فلم تھی، حفیظ کا خیال تھا کہ ’’گنگو پتر ماں دا‘‘ پہلوان کی کنجوسیوں کی وجہ سے ناکام رہی۔ پھر اس نے اپنا لائل پور والا آبائی مکان بکوا کر حصہ وصول کیا اور ذاتی فلم شروع کردی، نام رکھا۔۔۔دنیا پاگل خانہ۔۔۔۔یہ میراثی اور غیر میراثی خاندانوں کی کہانی تھی جن کے نوزائیدہ بچے ایک اسپتال کے لیبر روم میں بدل جاتے ہیں، فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جوان ہو کر کون سا بچہ میراثیوں والی حرکتیں کرتا ہے اور کون سا شریف زادوں والیاں ،، یہ کوئی انقلابیوں والی سوچ نہیں تھی ، مرکزی کردار تھا رنگیلا کا، حفیظ نے اس فلم کی کاسٹ میں عمر شریف سے ببو برال اور مستانہ تک تمام کامیڈین اکٹھا کر لئے تھے ، گھر بیچ کر فلم شروع کرنے کا میں حامی نہ تھا لیکن حفیظ کو کوئی مشورہ نہیں دیا، اس کے کئی دوسرے ہمدرد دوستوں نے بھی فلم شروع نہ کرنے کا مشورہ دیا جس کا حفیظ احمد نے برا منایا تھا، فلم چار آنے بن گئی تو پیسے ختم ہو گئے۔ اس کا چھوٹا بھائی جو ڈاکٹر ہے اور لندن میں رہ رہا ہے اس نے فلم کی تکمیل کے لئے حفیظ کو پیسے بھجوانے شروع کر دیے، کئی سال پیسے آتے رہے اور بالآخر فلم تقریباً مکمل ہو ہی گئی، اب ایشو تھا اس کے پرنٹ نکلوانے کا، مہنگائی بڑھ جانے کے باعث اب یہ کام بھی مشکل ہو گیا تھا۔ رائل پارک میں ایک دفتر بنا کر کراچی سے آنے والی رینا صدیقی کا مسرت شاہین اسٹائل فوٹو شوٹ کرایا گیا، لوگوں کو راغب کرنے کے سب جتن ہوئے مگر کسی اسٹیشن سے کوئی گاہک نہ آیا،رائل پارک کا یہ دفتر بھی بند کر دیا گیا، دفتر کا کرایہ اور دیگر اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے تھے، اس کی بیوی نے سالہا سال کی ملازمت کے بعد بچوں کے لئے پانچ مرلے کا اچھا مکان بنا لیا، تمام بچوں کو اچھی تعلیم دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا، وہ بے چاری تو حفیظ کی سفید پوشی کا جتنا بھرم رکھ سکتی تھی وہ اس نے کیا، حفیظ کو دو چار لاکھ کی ضرورت تھی فلم سینما تک پہنچانے کے لئے ، جس جس سے بھی بات کی اس کا کہنا تھا کہ ادھار لے لیں اور بتا دیں کہ واپس کب ملیں گے؟ اس سوال کا جواب حفیظ کے پاس نہیں تھا، وہ سانس اور اعصاب کا مریض بن گیا، وہ میرے پاس آتا تو سانس اکھڑا ہوتا ، بہت کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ اسی حالت میں اس نے اپنی شاعری کی کتاب چھپوائی، ’’محبت کی بازیافت‘‘، وہ کہتا تھا کہ یہ شاعری اس نے اپنی بیوی کے لئے کی ہے اور وہ اپنی محبوب بیوی کا ادھار چکا رہا ہے، عاصمہ جہانگیر کے ساتھ میں بھی اس کتاب کی تقریب رونمائی میں مہمان خصوصی تھا، میں نے کہا شاعری تو تم نے کبھی اپنی بیوی کے لئے نہیں کی ہوگی، یہ کتاب اور تقریب تم اس سے منسوب کرکے حساب چکا رہے ہو، حفیظ کی موت سے چند ماہ پہلے، جب وہ مصنوعی سانس کے سہارے دن گزار رہا تھا، میں نے اس سے ایک سوال کیا تم نے بھٹی برادران کے لئے کتنا کام کیا اور کتنے سال دئیے؟ دس سال اور کئی کامیاب فلمیں‘ میرا دوسرا سوال تھا، کتنے پیسے ملتے تھے تمہیں،؟میں نے حساب کیا تھا ایک بار، دس سالوں میں کل پانچ ہزار روپے ملے،پانچ ہزار؟ ہاں پانچ ہزار۔مجھے عنایت حسین بھٹی صاحب سے اپنی ایک ملاقات یاد آ گئی جو ’’ظلم دا بدلہ‘‘ کی تاریخ ساز کامیابی کے کئی سال بعد ہوئی تھی ، بھٹی صاحب نے فرمایا تھا۔ ہوتا ہے تو بانٹ دیتے ہیں، نہیں ہوتا تو شکر ادا کرتے ہیں۔