ملکی سیاست جس موڑ سے گذر رہی ہے اس کو اگر سیاسی سیلاب سے تشبیہ نہ دی جائے تو پھر اس کو کیا کہا جائے؟ اس وقت معلوم نہیں ہوتاکہ آنے والے دن میں کیا ہونے والا ہے۔ سیاسی بے یقینی کا ایسا عالم ہے کہ ملک تاریخ نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ کوئی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیوں کہ کون جانے کہ کہاں سے کب کون سا فرمان آجائے؟ اس عالم میں یہ بھی بڑی بات ہے کہ افواج پاکستان نے اس بات کا اعلان متعد بار دہرایا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ہمارے اس عظیم ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں صرف اور صرف جمہوریت کا راج ہوگا مگر کیا جمہوریت ہے؟ ہمارے سیاستدانوں کو سوچنا چاہئیے کہ وہ جس قدر جمہوریت کو خوار کر رہے ہیں اس سے فائدہ کس کو پہنچے گا؟ جمہوریت ہمارے لیے بہت ضروری ہے مگر جمہوریت کی کچھ شرائط بھی ہوا کرتی ہے۔ غیرمشروط جمہوریت تووہاں بھی نہیں ہے جہاں جمہوریت کا جنم ہوا تھا۔ کیا آپ مغرب میں ایسی جمہوریت کا ڈھول پیٹ سکتے ہیں جس کے آگے کوئی شرط نہ ہو۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ آزادی اظہار پر مر مٹنے والی اقوام اس وقت اپنے ہونٹ سی کر خاموش ہوجاتی ہیں جب امریکہ افغانستان اور عراق میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ کیوں کہ ویتنام جنگ سے لیکر آج تک مغربی میڈیا کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ جب بھی ان کے قومی مفادات ہوتے ہیں تب وہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کی کتاب میں کیا لکھا ہوا ہے۔ مگر مغرب میں پھر بھی جمہوریت کا نظام جاری ہے۔ جب کہ ہم لوگ جمہوریت کے نام پر جو آزادی اظہار کی عیاشیاں کرتے ہیں ان کو یہ تک نہیں معلوم کہ جمہوریت ایک ایسا اونٹ ہے جس پر ہم نے پہلے ہی بہت بوجھ لاد دیا ہے۔ملک اقوام سے بنتا ہے مگر اقوام اداروں سے تشکیل پاتی ہیں۔ اس دور میں وہی ممالک محفوظ سمجھے جاتے ہیں جن ممالک کے ادارے بہت مضبوط ہیں۔ ہم اداروں کو مقدس نہ بھی کہیں مگر اداروں کی ایک عزت ہو اکرتی ہے۔ اداروں کا ایک وقار ہے۔ اگر ہم نے اپنے اداروں کو بے آبرو کیا تو پھر ہمیں بچانے کے لیے دنیا کے دوسرے ممالک والے ادارے نہیں آئیں گے۔ ہر ملک اور قوم کو اپنے ادارے کام آتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے ہم نے اپنے اداروں کی عزت پائمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے سیاسی مفادات کے لیے اپنے اداروں کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا توپھر ہمارا حشر کیسا ہوگا؟ اس بارے میںہم کسی بہتر امکان کا اظہار نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ ہمارے اپنے اعمال ایسے ہیں کہ ہم اپنے نقصان کا کسی دشمن پر بھی الزام عائد نہیں کرسکتے۔ ہر انسان اور ساری اقوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے سیکھیں مگر ہم نے ماضی سے کچھ بھی سیکھنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کو اپنا مکتب بناتے تو آج ہمارا ہمارا حال ایسا نہ ہوتا۔ ہم نے پوری دنیا میں اپنے ملک کے حوالے سے جیسی صورتحال بنا کر رکھی ہے وہ ہمارے کام نہیں آئے گی۔ اس وقت پاکستان پر بہت سارے بحرانوں کا بوجھ ہے۔ ہم کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ ان سارے بحرانوں کی جڑ ہمارے سیاسی بحران میں ہے۔ کیا ہمارے سیاسی بحران کا سبب یہ ہے کہ ہم غریب اور مقروض ہیں؟ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جو اقوام اور جو ممالک غریب ہوتے ہیں ان کی سیاست بھی غریب ہوجاتی ہے۔ مگر ہم نے دیکھا ہے۔ ہم نے تاریخ میں ایک بار نہیں بلکہ متعد بار دیکھا ہے۔ ہم نے صرف مشرق کی تاریخ میں نہیں بلکہ مغرب کی تاریخ میں بھی یہی دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی قوم سیاسی طور پر غریب ہوجاتی ہے۔ تب وہ نہ صرف معاشی طور پر مقروض ہوجاتی ہے بلکہ اپنی قومی زندگی کے ہر پہلو میں اس کا حشر نشر ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات سے بچنا چاہیے۔ ہمیں اس عمل سے باز آنا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو پوری دنیا میں رسوا کریں اور پوری دنیا کو یہ بتائیں کہ ہم کس طرح جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ جمہوریت ہمیں آزادی دیتی ہے کہ ہم اختلاف کا اظہار کریں۔ مگر جمہوریت کی کتاب میں یہ بات کہیں بھی درج نہیں کہ ہم آزادی کے نام پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں اور اس حد تک اپنا صبر چھوڑ دیں کہ اگر ہمیں کوئی سیاسی مخالف نظر آئے تو اس کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کریں۔ جمہوریت اس قسم کی آزادی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر جمہوریت کی کتاب میں ایسی آزادی موجود ہوتی تو آج پوری دنیا کے جمہوری ممالک خانہ جنگی میں مبتلا ہوجاتے۔ سیاست جھگڑے کا نام نہیں۔ ہم اس آزادی کا کیا کریں جو آزادی ہماری قومی غلامی کا سبب بن رہی ہے؟قوم اس وقت بہت پریشان ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یہ کہاں کا سفر ہے؟ کہاں جا رہے ہیں؟ ہر سفر کا ایک روڈ میپ ہوا کرتا ہے۔ ہر مسافر کی ایک منزل ہوا کرتی ہے۔ منزل کے بغیر مسافر ہمیشہ بھٹکتا ہے۔ منزل کے بغیر مسافر کا حشر اس لالہ صحرائی جیسا ہوتا ہے جس کے بارے میں حکیم الامت نے فرمایا تھا: ’’منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی؟‘‘ ہمارے سیاستدانوں کو جب ایک دوسرے کے خلاف گالیاں دینے اور الزامات عائد کرنے سے فرصت میسر ہو پھر ایک پل کے لیے ہی سہی مگر انہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی منزل کون سی ہے؟ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کی ان کی منزل ہے تو پھر ان کو اس بارے میں سوچنا ہوگا بلکہ فکر کرنا ہوگا کہ انہیں اوران کے بچوں اور اہل خانہ کو تو اقتدار میسر ہوگا مگر اس قوم کو کیا ملے گا؟ یہ قوم جو صدیوں کے مسافت میں چلتے چلتے بہت تھک گئی ہے۔ قوم کے ساتھ کیے گئے وعدے اس شبنم کی طرح ثابت ہوئے جو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ بھاپ بن کر اڑ جاتی ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا: ’’پرتو خورسے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک‘‘ قوم کو اقتدار میں آنے کا شوق بھی نہیں۔ یہ شوق سیاستدانوں کو مبارک ہو۔ مگر قوم کا اتنا تو حق ہے کہ وہ اپنے قومی رہنماؤں کو بتائے کہ انہوںنے اس دیس میں اس لیے جنم نہیں لیا کہ صرف جھنڈے لہرائیں اور تالیاں بجائیں۔ انہوں نے ہر قوم کی طرح تاریخ کے سنگ لاخ راستے پر جو سفر کیا ہے اور جس سفر کے باعث اس کے پیروں میں چھالے پڑ گئے ہیں ۔’’حضور! یہ کہاں کا سفر ہے؟ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘