مزاج میں امتزاج کی شرح تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ انسان کو خطا و نسیان سے مرکب بنایا اور پھر مزاج میں اضداد کا ایسا پر پیچ نظام وارد کر دیا کہ مدبراتِ امر بھی اپنی تنگیٔ داماں کا اعتراف کرتے ہوئے سبحان ذی الملک والملکوت کے ورد میں مشغول ہیں۔ کتنے مخاطب ہوتے ہیں ذہن میں۔ جب خامہ فرسائی کا عمل فکر سے تال میل کرتا ہے۔ روزانہ افکار نوک قلم سے پھسل کر سطح قرطاس کو شبنمی کرتے ہیں اور خواندہ و نیم خواندہ گروہ عاقلان ہوتا ہے، جو الفاظ کی چوبی روٹی کو اندر اتارتا ہے۔ بس روز مرہ کی مشق لکھنا ہے‘ پڑھنا‘ سر دھننا ہے نشۂ علم کی کمزور اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ الفاظ کے برتن میں متاعِ بے مایہ کو حقیقی معانی سمجھ کر لسی کی طرح بلویا جائے۔ سچ کیا ہے؟ یہ سب سوال انسانی عمرانیات کی فطرتِ جاریہ کا ایسا حصہ ہیں کہ ہر دور کے امتحان میں ان سوالات کا جواب دینا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن فطرت کے خانۂ شرمیں ابلیسیت کی دھماچوکڑی کا مکارانہ راج ہر حقیقت کو دھندلا دیتا ہے۔ روزانہ نئی باتیں تو سننے میں آتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ پرانی باتیں کچھ غریب مار وارداتیے نئے الفاظ میں پرانے دکھڑے روتے ہیں۔ سب سے زیادہ درد ان کے پیٹ میں اٹھتا ہے جن کے ہاں ایمان‘ اخلاق‘ ضابطہ اور مروت کے الفاظ برائے نمائش ہوتے ہیں۔ اور وہ کامیاب نمائش کی ادائیگی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسوں کا رواج اب کم ہے۔ ٹویٹ پر قوم کی گردن پر چاند ماری کی مشق جاری ہوتی ہے۔ اہم عنوان قوم کی پتلی معاشیات اور عوام کی بیمار اقتصادیات ہوتی ہیں۔ ایک بیان باز کرائے پر اپنا حق خدمت ادا کرتا ہے اور پھر اس روایتی جملے کو بیانیے کا نام دے کر اخبارات کے اوراق کو قرطاس اسود میں بدلنے کے ماہر دین اور فلسفے کا مقدس لبادہ اوڑھا کر قوم کو نیا نشہ پلاتے ہیں۔ قوم فروش اور خود فراموش اپنے شبستانوںمیں حسب ہمت داد عیش دیتے ہیں اور مبرا عن الخطاء ہونے کا سیاسی اعلان داغتے ہیں ادارے سر پیٹ رہے ہیں کہ قومی دولت کا خائنانہ ارتکاز کرنے والوں کو سب جانتے ہیں لیکن جان کر کیا کر لیں گے۔ یہ روایتی خائنین ‘ رسہ کشی میں بھی کبھی غلط نہیں گرتے۔ کبھی پرسش مال ہوتی ہے تو قانون کو موم کی ناک بنا کر ایسی معصومانہ تصویر اترواتے ہیں کہ خود مصور بھی اپنی کم مائیگی کو متاعِ فن قرار دیتا ہے۔ ہر سال ٹیکس‘ اثاثے اور جائیدادیں پڑتال کے عمل سے گزرتے ہیں لیکن چور پوری طرح سے چتر ثابت ہوتے ہیں۔ سارے جہاں کا مال لوٹنے والے ممبران قومی اسمبلی‘ ایوان بالا کے ارکان اور سیاسی جماعتوں کے بڑے بالکل ہی فقیر اور گداگر نظر آتے ہیں۔ چند کروڑ کے اثاثے لیکن خاموش کھربوں کی مالیت کے اثاثے قوم کو منہ چڑاتے ہیں اور پوری قوم کے رسہ گیروں کے پشت پناہوں کو بھی قسم معصومیت دینا پڑے تو ایسی سادگی سے کاغذوں کو روسیاہ کرتے ہیں کہ شیطان بھی کان پکڑے۔ کیا تبصرہ اور کیا خیال، بے وقوف ‘ عقل دشمن‘ عوام فروش یہ سمجھتے ہیں کہ اب تک کی ہماری فریبی کارروائی نے سارے پاکستان کو اندھا‘ بہرہ گونگا کر دیا ہے ۔ ان کی آنکھوں کا سیاہ چشمہ غماز ہے کہ ان کا دل بھی کالا ہے۔ پرائے جام کی تلچھٹ سے مینڈکی کو زکام ہوا ہے اور مینڈک کی چال میں مردنی ہے۔ جناب وزیر اعظم نے بیان دیا ہے کہ کوئی چور میرا ساتھی نہیں ہے۔ جناب نے درست فرمایا اور ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دست آہن کو توفیق بخشے کہ وہ اپنے ٹانگہ سوار حلیفوں کو بھی اپنی صف دوستاں سے نکال کر باہر کر دیں۔ ایف بی آر جاگے اور اپنے جاگنے کی دعا کیا کرے۔ بسا اوقات شریفوں کی اولاد مسند احتساب اور منصب انتظام پر بیٹھے تو خوف اور لالچ کی بلائیں انہیں گھورتی ہیں اور ان کے تخت اختیار کے انجر پنجر ہلا دیتی ہیں۔ انتقام‘ تبادلہ‘ جبر کے رویے ان کی نان شبینہ کو خطرے کے حوض میں ڈبو دیتے ہیں لیکن خدا کا نام غالب ہے۔ خبر پہ خبر آ رہی ہے کہ چوروں کا شجرہ الجھے ہوئے کانٹوں کے خود رو پودوں سے ملا ہوا ہے چوروں کا قبیلہ مقامی نہیں‘ قومی نہیں۔ ملکی نہیں‘ بین الاقوامی ہے۔ امیدوں کے دست دعا اب بلند ہیں۔ استقامت میں ہیں۔ پھیلے ہوئے ہیں۔ نسیم قبولیت ان کو حوصلہ دے رہی ہے۔ اب ملک کا ‘ سلطنت کا ‘ قوم کا مقدر خیر کے دروازوں کے قریب ہی کھڑا ہے۔ ایماندار افسران طلب شہادت کی آرزو لئے ثابت قدم رہیں۔اس ملک کے مقدر میں رفعت ہے۔ عزت نامی ہے۔ ہنگامی ماحول میں یہ زیادہ ضروری ہے کہ حکومت خوشامدی کا ذبین افسران اور وزراء سے دور رہے۔ ہمہ وقت نصرت خداوندی پر نظر رکھے۔ اگر اپنی بے وزن خود اعتمادی کے گرداب میں پھنس گئی تو کسی بھی وقت ساحل آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ ایک اچھی خبر تھی کہ ہتھیار ڈالنے کا وقت قریب آ رہا ہے اور معافی تلافی کا راستہ کھل رہا ہے لیکن گہرے پانیوں کے تیراکوں کو ابھی حوصلہ ہے کہ شاید ہم احتساب کو کہیں دھکا دے کر ڈبو دیں گے۔ درویش نے کہا کہ جھوٹوں کو فرشتے رحمت خداوندی سے دور دھکیل رہے۔ گہرے پانیوں کے لالچی اپنے ڈوبنے کا سامان خود کر رہے ہیں۔ سرمایہ دار‘ سرمایہ پرست ہوتا ہے۔ مایا کی دیوتی کو اماں دیوتی کہتا ہے۔ اپنے سے بڑے دھنوار کو دھن پتا کہتا ہے۔ پروہتوں کا منہ بند کرنے اور روایتی گداگروں کی جھولی میں سراخ کرتا رہتا ہے۔ خود ہوتا ہے‘ ٹھٹے پہ ٹھٹا مارتا ہے۔فطرت کے انتقام کا عفریت گردن کے بل گرا کر دانت توڑتاہے۔ زبان کھینچ لیتا ہے۔ کھلے بدمعاش اور خفیہ شرارت کار اسی طرح مرنے سے پہلے پہلے ذلت کا روز سیاہ دیکھیں گے اور صدائے حق گونجے گی۔ کہ چکھ اب مزہ کہ بڑا صاحب کروفر‘ اور بزعم خود بڑائی کا بت بنا پھرتا تھا۔