ایف ایس اعجازالدین لاہور سے تعلق رکھنے والے دانشور اور لکھاری ہیں ۔ انہوں نے ایک معاصر انگریزی اخبار میںاپنے کالم میں ملک کی عدلیہ کے بارے میں فکر انگیز باتیں لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیس برس پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد تیرہ ہزار تھی۔دس سال پہلے یہ تعداد بیس ہزار ہوگئی۔ آج ترپن ہزار ہے۔ ان مقدمات میں انسانی حقوق سے متعلق مقدمات کی تعداد صرف ایک سو چھتیس ہے ۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس لے کر سنے جانے والے مقدمات کی تعداد محض چوبیس ہے حالانکہ ان کی بہت تشہیر کی جاتی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا ہر دو رکنی بینچ روزانہ ایک مقدمہ سُنے تو اسے تمام زیرالتوا مقدمات کو نپٹانے میں بیس برس لگ جائیں گے اور موجودہ سال میںجو نئے مقدمات داخل ہوں گے ان کی سماعت بیس برس بعد شروع ہوسکے گی۔اعجازالدین صاحب نے جو تصویر کھینچی ہے وہ خاصی تشویش ناک ہے۔ یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ہمارے ملک کاقانونی نظام بہت ہی سست رفتاری سے کام کرتا ہے۔ ہر حکومت جلد اور سستے انصاف کا نعرہ لگاتی ہے لیکن اسے عملی صورت دینے کے لیے اقدام نہیں کرتی۔میں اپنے بجپن یعنی پچاس برس سے عدلیہ کے بارے میں یہی رونا دھونا سنتا آرہا ہوں۔حیرت زدہ ہوں کہ کیا یہ اتنا گنجلک اورانتہائی مشکل معاملہ ہے جو آج تک حل نہیں کیا جاسکا۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں عدلیہ کی حالت ہم سے کہیں بہتر ہے۔ مناسب وقت کے اندر اندر فیصلے ہوجاتے ہیں۔ زندگی گزارنے کے کئی معاملات میں ہم امریکہ اور یورپ کی نقل کرتے ہیں لیکن اپنے نظامِ حکمرانی کو بہتر بنانے میں ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ مجھے یاد ہے کہ سات آٹھ سال پہلے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کی تجویز پر غور کیا گیا تھا تاکہ عدالت عظمیٰ نسبتاً زیادہ مقدمات نپٹا سکے۔لیکن کئی حلقوں بشمول وکلا ء نے اسکی شدید مخالفت کی اور یہ کام نہیں ہوسکا۔بعض وکلاء کاموقف تھا کہ ہائی کورٹس کے کئی سینئر جج سپریم کورٹ چلے جائیں گے تو عدالت عالیہ میں مقدمات سننے والوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ حال میں ہم نے دیکھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا فیصلہ ہوا تو وکلاء تنظیموں نے اسکی بھرپورمخالفت کی اور سینیارٹی کے اصول پر اصرار کیا حالانکہ اس سے پہلے سنیارٹی کے بغیر درجنوں لوگ سپریم کورٹ کے جج بنائے گئے۔ اُن مواقع پر وکلاء کے گروہ خاموش رہے۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کسی حد تک سیاسی مسئلہ بن جاتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں سیشن کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جائے تو اسکی سماعت کی باری پانچ سے چھ سال بعد آتی ہے۔ لاکھوں مقدمات زیرالتوا رہتے ہیں۔لیکن اِس محترم عدالت میں ججوں کی کئی آسامیاں اکثر و بیشتر خالی پڑی رہتی ہیں۔ اس وقت بھی بارہ جج کم ہیں۔محترم جج منصور علی شاہ جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے جج دنیا کے ججوں کے مقابلہ میںزیادہ مقدمات سنتے اور نپٹاتے ہیں۔ ان پر عدالتی کام کا دباؤ خاصا زیادہ ہے۔ دنیا کے اوسط کے مقابلہ میں تین چار گنا۔ سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کے راستے میںکیا رکاوٹ ہے کہ وہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرتی ‘ خالی آسامیوں پر بروقت تقرریاں نہیں کرتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے قابل لوگ نہیں ملتے جو جج بن سکیں۔ اکثر لوگ ماتحت عدلیہ میںبھرتی کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے لاء کالجوں کی تعلیم اتنی ناقص ہے کہ وہ معیاری وکلا ء تیار نہیں کررہے۔ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اتنا قابل ہے کہ وہ کئی سال تک سیشن جج کے طور پر کام کرتاہے اور اہم ترین مقدمات کی سماعت اور فیصلے کرتا ہے تو اُسے ترقی دیکر ہائی کورٹ میں کیوںنہیں لے جایا جاسکتا۔ سیشن عدالتوں کے ججوں کو ہائی کورٹس میں ترقی دے کر خالی آسامیاں کیوں پُر نہیں کی جاتیں؟ ریاست ہر معاملہ میں مخصوص گروہوں کے مفادات کے سامنے بے بس کیوں ہوجاتی ہے؟ عوام کا وسیع تر مفاد کیوں نہیں سوچتی؟ حکمران طبقہ نے جو کام نہیںکرنا اسکے لیے فضول قسم کے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ بزرگ قانون دان عابد منٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ججوں کے معیار میں تنزل آیا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ انگریزی زبان پر عبور نہیں رکھتے جبکہ قانون کا تحریری مواد انگلش میں ہے۔یہ بات ٹھیک ہے لیکن ملک میں انگلش میڈیم میںتعلیم حاصل کرنے والے وکلا ء کی تعداد کم نہیں۔ وہ زیادہ تر امیر اور اعلیٰ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اکثربرطانیہ کے اداروں سے قانون کی ڈگریاں لیتے ہیں۔ لیکن وہ جج بننے کی بجائے زیادہ تر وکالت کرنا پسند کرتے ہیںجس میں زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ ججوں کی تنخواہ اور مراعات جتنی بڑھ جائیں وہ مہنگے وکیلوں کی آمدن کا مقابلہ نہیںکرسکتیں۔زیادہ تر اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے وکلاء ماتحت عدالتوں کے جج بننا پسند کرتے ہیں۔ لیکن زُبان ایسا مسئلہ نہیں جو سلجھایا نہ جاسکے۔ اگر قانون کی بڑی کتابوں کا اردو میں ترجمہ منظم طریقے سے کیا جائے تو چند برسوں میں یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ اب مصنوعی ذہانت کا دور ہے۔ سافٹ وئیر پلک جھپکنے میں کسی تحریر کا ایک زبان سے دوسری زبان میںترجمہ کردیتے ہیں۔ اس فوری ترجمہ میں کچھ نقائص ہوسکتے ہیں جنہیں نظر ثانی کرکے کم وقت میں درست کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں تاریخی طور پر قانونی نظام فارسی زبان میں رائج رہا ہے۔ قانون سے متعلق اصطلاحات موجود ہیں۔ سائنسی زبان کے ترجمہ میں مشکل پیش آسکتی ہے لیکن قانونی کتابوں کا ترجمہ مشکل نہیں۔ فارسی اور عربی کے الفاظ اردو میں سمو جاتے ہیں بلکہ انگریزی کے بہت سے الفاظ بھی اُردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ حکومت ایسا سافٹ وئیر تیار کروائے جس کی مدد سے قانون کی کتابوں کے ساتھ ساتھ تمام عدالتوں کے فیصلوں کی اُردو نقول فوری طور پرتیار ہوجایا کریں ۔سائلین کو انگلش کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی نقول فراہم کی جائیں۔ تاکہ عام آدمی کی قانون سے واقفیت میں اضافہ ہو اور اسکی قانونی نظام سے اجنبیت کم ہو۔عدلیہ ہو یا کوئی زندگی کا شعبہ جب اسکے گنجلک پہلووںکا بغور جائزہ لیں تو ایک ہی بات نمایاں ہوتی ہے کہ ملک میں کچھ مخصوص گروہوں کی اجارہ داری ہے اور ایک خاص اشرافیہ ہے جس نے پورے ریاستی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہ طبقہ عوام الناس کے فائدے کی خاطر اصلاحات اور تبدیلی لانے کی مزاحمت کرتا ہے تاکہ معاشرہ پر اس کی جکڑ بندی اور اجارہ داری ختم نہ ہوجائے۔ لیکن کب تک؟