جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے اپنی حالت پہ ہنسی خود بھی مجھے آتی ہے جو بھی آتا ہے مجھے اور رلا جاتا ہے کبھی کبھی لگتا ہے کہ حکومت اور عوام دو متضاد چیزیں ہیں کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا اور یہاں تو گھوڑے بیچنے اور گھوڑے دوڑانے والے دونوں موجود ہیں۔ میں آپ کو آغاز ہی سے پریشان نہیں کرنا چاہتا کہ آخر آپ کو کالم بھی پڑھانا ہے۔ مجھے تو سراج الحق صاحب کا بیان پڑیھ کر ہنسی آ گئی کہ انہوں نے اپنے بیان میں عجیب قافیہ پیمائی کی کہ گھوڑے گدھے ملا دیے ہیں بات ان کی درست ہے مگر شاعرانہ نہیں کہ قافیہ کا صوتی خیال ضروری تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ نوٹوں‘لوٹوں‘بوتوں اور جھوٹوں کی سیاست ختم ہونی چاہیے ۔اب دیکھیے کہ اس میں نوٹوں لوٹوں کا قافیہ الگ ہے اور بوٹوں اورجھوٹوںکا الگ۔ انہوں نے یہ بات کر کے دریا کو کوزے میں بند ک دیا کہ جو لوگ خود بک جاتے ہیں وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے کریں گے۔ مزے کی بات تو یہ کہ یہ بکنے والے قیمتی تو عوام ہی ووٹوں سے ہوتے ہیں۔ ویسے اب تو یہ تکلف بھی نہیں رہا، یا یوں کہیں کہ اب ووٹ بھی تکلف ہی ہے ٖ! اس کی آنکھوں کو جو دیکھا تو پکار اٹھا میں کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کو جادو آئے اب آتے ہیں سرکاری ملازمین کے دھرنے اور 25فیصد ایڈہاک ریلیف کی طرف، حکومت کی تو جیسے سرشت میں ہے کہ کوئی اچھا کام بھی اچھے طریقے سے نہیں کرنا۔ روز افزوں مہنگائی ہی ان کا ٹریڈ مارک ہے۔ جب آپ سرکاری ملازمین کو دیوار سے لگائیں گے تو وہ کیا کریں۔ میں نے عبدالغفور ایڈووکیٹ سے وکلاء کے رویے پر شکوہ کیا تو کہنے لگے کہ یہاں کون سا کام سیدھے طریقے سے ہوتا ہے حکومت سے اسی کی زبان میں بات کرنا پڑتی ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ماں بھی بغیر روئے بچے کو دودھ نہیں دیتی۔ ویسے ماں تو یہ حکمت عملی کے طور پر کرتی ہے وگرنہ وہ تو بچے کو گرم ہوا سے بھی بچاتی ہے اس کی بلائیں لیتی ہے جبکہ حکومت تو بلا ثابت ہوئی ہے۔ خرابی بسیار کے بعد کہ بے چارے سرکاری ملازمین پر کہ جن میں اساتذہ بھی تھے کس انداز میں تشدد کیا گیا۔ دھوئیں کے مرغولے اٹھتے رہے ربر کی گولیاں چلتی رہیں اور میدان جنگ کی صورت بنی رہی۔ سرکاری ملازمین بھی بار بار کے ڈسے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کے وعدوں پر اعتبار کرنے سے انکار کر دیا اور اب بھی کہنے کو مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور تنخواہ میں 25فیصد ایڈہاک ریلیف مل گیا ہے مگر آپ دیکھتے جائیے کہ حکومت اب کیا کرے گی۔ جو لوٹنے آئے ہوں وہ لٹتے نہیں ہیں۔خدا کرے میرا خدشہ غلط ہو اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ہونے والے وعدے ایفا ہو جائیں کہ بظاہر تو ٹائم سکیل اور اپ گریڈیشن کا فیصلہ درست طور پر عمل پذیر ہو جائے۔ وعدے کرنے میں تو ویسے بھی خان صاحب شیر ہیں۔ وعدے میں تو سرائیکی صوبہ بھی سرفہرست تھا۔ ویسے چلتے چلتے ایک کمال کی بات کر جائوں کہ عوام کے نمائندے بھی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور پھر جب انتخاب قریب آتے ہیں تو اپنا الو کسی اور شاخ پرجا بٹھاتے ہیں: خوش خیالی نے بھی کیا معجزہ سامانی کی اب ہمیں کاغذی پھولوں سے بھی خوشبو آئے چلو اچھا ہوا کہ مارکٹائی کا انجام اچھا ہوا کہ مطالبات مان لئے گئے اور ملازمین نے ڈی چوک میں رقص کیا۔ ویسے وہ شکرانے کے نوافل ادا کرتے تو بہتر تھا۔ خیر خوشی کا اظہار ہے۔مگر پرویز خٹک‘ شیخ رشید اور علی محمد کی شیلنگ اور تشدد پر معذرت بھی تو ضروری تھی ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ۔ چلیے شکوے شکایت کیا کرنے کہ بنتا بناتا تو پھر بھی کچھ نہیں اب دیکھیے کہ ہمارے مرغزار کالونی میں نہایت اہتمام کے ساتھ جمعرات کو صبح 9بجے سے اڑھائی بجے تک بجلی نہیں آتی اور اب انہوں نے ایک اور دن میں دائو لگانا شروع کر دیا ہے اور یہ کوئی دن متعین نہیں سوموار یا بدھ۔ اخبار میں وزیر کی طرف سے خبر لگ جاتی ہے کہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہ کی جائے یہ اتنا ہی بے معنی بیان ہے جس طرح ہمارے محترم وزیر اعظم مہنگائی کی ہر لہر پر کہتے ہیں مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے جیسے کہ اس چڑیل کو کنٹرول کسی نے مریخ سے آنا ہے۔ ٹیلی فون نیٹ کا سن لیں کہ تین دن سے ان کی تسلیوں پر بیٹھے ہیں وہاں جاتے ہیں تو وہ بڑی پھرتی سے اوپر نیچے فون کرتے ہیں اور پھر ایک فون نمبر تھما دیتے ہیں کہ اگر اب بھی ٹھیک نہ ہو تو اس پر رابطہ کریں اور پھر یہ نمبر کبھی نہیں ملتا۔ کوئی مرے یا جیے نظام ایسے ہی چلنا ہے تبدیلی والے میں اسی کے مرہون منت ہیںکیا کریں: اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے چلیے آخر میں کرکٹ کا تذکرہ کر دیتے ہیں کہ ہمیں اس کے ساتھ بھی پرانا عشق ہے خاص طور پر رضوان کو ٹونٹی ٹونٹی میں سنچری بنانے پر مبارک دینی ہے یہ آسان نہیں تھا۔دوسری طرف زیادہ خوشی کی بات یہ کہ وہ دوسرے پاکستانی اور دنیا کے دوسری وکٹ کیپر ہیں جنہوں نے تینوں فارمیٹ یعنی ٹسٹ ‘ ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی میں سنچری سکور کی ہے۔ رضوان نے تو آتے ہی اپنے ہونے کا احساس دلا دیا تھا اور یہ بھی کہ اسے کیوں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ ہمارے دوست محمد عباس مرزا نے پوسٹ لگا دی تھی کہ آخری اوورز غلط دے دیا گیا ہے خیر ہم سنسنی خیزی کے بعد 3رنز سے میچ جیت گئے لیکن مجھے آخری اوور کی بات سے ایک اور آخری اوور یاد آ گیا۔اگر آپ کو لاہور قذافی سٹیڈیم کا میچ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تھا یاد ہو تو اس ون ڈے میچ میں آخری اوور سلیم جعفر کو دیا گیا تھا۔ اس اوور میں اسے 18رنز پڑے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ پاکستان 18رنز سے ہی ہارا تھا ۔ میں چونکہ اس میچ میں وہاں موجود تھا ایک اور بات یاد رہی کہ سری کانت آئوٹ ہونے پر کھڑا رہا تو کیپٹن عمران خاں نے اسے دوبارہ کھیلنے کے لئے کہا۔خان صاحب میں بڑی سپورٹس مین سپرٹ تھی بس تھی سے آگے میں کچھ نہیں لکھ سکتا کہ غالب کا شعر یاد آ رہا ہے: تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائی خیال کہاں