وبا کے دنوں کی عید تھی جیسے تیسے کر کے گزر گئی stay at homeاور stay safeکی پوسٹیں فیس بک پر تواتر سے لگانے والے بھی عید کے روز اپنوں سے ملنے ملانے گئے۔ حالانکہ ارادہ یہی تھا کہ محدود رہنا ہے اور محفوظ رہنا ہے لیکن کیا کریں کہ عید اس کے علاوہ اور ہے ہی کیا کہ انسان زندگی کی ہر مصروفیت سے دامن چھڑا کر چند لمحوں کے لیے اپنوں کے ساتھ مل بیٹھے، اور بس۔ اسی لیے تو عیدوں پر پردیسی اپنے اپنے گھروں کا رُخ کرتے ہیں۔ کوئی لاری اڈے کی تھرڈ کلاس بسوں میں کوئی ریل گاڑیوں تو کوئی جہازوں میں، منزل سب کی ایک ہوتی ہے کہ عید کا دن اپنوں کے ساتھ منایا جائے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے موٹر سائیکلوں پر پورے پورے خاندان کو بٹھا کر باقاعدہ ایک کرتب کرتے ہوئے، دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں اور یہ مشکل وہ اسی لیے کاٹتے ہیں کہ عید کے دن کو اپنوں کی دید کے ساتھ روشن کیا جائے۔ طیارے کے حادثے نے دلوں کو سوگوار کر رکھا تھا۔ اسی لیے عید روایتی گہما گہمی سے عاری تھی۔ یوں بھی وبا کا سایہ عید پر موجود تھا۔ سینکڑوں لوگ قرنطینہ کے سرکاری عقوبت خانوں میں تھے۔ درجنوں افراد موت کی وادی میں اتر چکے تھے۔ ایک اداسی اور سوگواری ماحول میں یوں بھی موجود تھی۔ مگر بھلا ہو ٹی وی چینلز کے رنگا رنگ بڑھکیلے اور ’’میوزیکیکے‘‘ پروگراموں کا، کہ انہیں دیکھ کر عوام کو قطعاً اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس وقت جب عید گھر کی دہلیز پر موجود تھی، تو PIAکے جہاز کریش میں 90سے زیادہ زندہ انسانوں کا جل کر مر جانا کس قدر اندوہناک حادثہ تھا اور ایسا حادثہ جس نے صرف ان بدقسمت مسافروں کے لواحقین کو بھی رنج اور دکھ سے ادھ موا نہیں کیا بلکہ ہر حساس دل پاکستانی ایسے حادثے پر ایسا رنجیدہ تھا کہ جیسے یہ ہم سب کا سانجھا دکھ ہو اور ان میں بیشتر ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے آخری وقت کی عید شاپنگ کو بھی صرف اسی سوگواری میں ملتوی کر دیا۔ چاند رات کو اپنے ہاتھوں پر مہندی نہیں لگائی کیونکہ دل میں بار بار ان کا خیال آتا تھا جو اپنے گھروں کو جانے کے لیے سفر میں تھے مگر وہ موت کی وادی میں اتر گئے۔ ان کی آمد کا انتظار کرنے والی آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ سو ایسی عید میں جب ایک قومی سوگواری کا احساس چار جانب موجود تھا تو ہمارے ٹی وی چینلوں سے بھی تو دکھ کی اس یکجہتی کا اظہار ہونا چاہیے تھا۔ ہم غمزدہ خاندانوں کے ساتھ صرف بیانات میں کھڑے ہوتے ہیں۔ عید کو سادگی سے منانے کے سرکاری اعلانات کے بعد، عید کو خوب دھوم دھڑکے سے منا کر ہم اپنی روایتی بے حسی پر قائم و دائم رہتے ہیں کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں اور پائندہ قوم ہیں! میری ناقص رائے ہے کہ میڈیا کو سماج اور معاشرے کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور اس معاشرے کی جو روایات ہیں وہ اس کی سکرین سے منعکس ہونی چاہئیں۔ ہماری روایت یہ ہے کہ ہمسائے میں اگر جوان موت ہو جائے تو آس پاس کے گھروں میں اس دکھ میں یکجہتی کے طور پر اپنے گھروں میں ٹی وی نہیں لگایا کرتے تھے اور آس پاس کے گھروں میں اگر کوئی شادی بیاہ کی تقریب آ جاتی تو لوگ اپنے دھوم دھڑکے کو دھیما کر لیتے تھے تا کہ ہمسایوں کو گراں نہ گزرے۔ یہ ہماری روایتیں ہیں کہ ہم موت والے گھر میں جاتے ہوئے شوخ رنگ کپڑے نہیں پہنتے۔ یہی انسان کا انسان کے ساتھ وابستگی اور انسانیت کا رشتہ ہے تو ایک ایسے معاشرے کا میڈیا جب قومی سانحے کے موقع پر بے حسی کا مظاہرہ کرے تو حیرت ہوتی ہے۔ اس کا جواب دینے والے یہ دیتے ہیں کہ عید کے پروگرام پہلے سے ریکارڈ شدہ تھے جبکہ 97افراد کا جہاز عید سے دو دن پہلے کریش ہوا۔ پروگراموں میں تبدیلی کیسے ممکن تھی۔ بات یہ ہے کہ کورونا سے روزانہ سینکڑوں افراد کی موت کی خبریں بھی تو یہی میڈیا دن رات سنا رہا ہے اور گزشتہ تین مہینوں سے مسلسل بیماری، موت اور وبا کی خبریں۔ ماحول پر رنج، تکلیف، اداسی، خدشات، واھمے، خدشے تین مہینوں سے گھٹا کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں پروگرام بنانے والوں کو خود ہی شعور اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ زرق برق لباس، زیورات سے لدی پھندی اینکر خواتین، دھوم دھڑکا، قہقہوں اور تالیوں سے گونجتے پروگراموں کی جگہ ایسے شوز بنائے جاتے جو سوچ کی عکاسی کرتے جس سے اس وقت پورا معاشرہ گزر رہا ہے۔ فیملی انٹرویوز، ہلکے پھلکے ذاتی نوعیت کے ٹاک شوز، بہت دھوم دھڑکے کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری مصروفیت کا بھلا ہو کہ ہم عید کے تینوں دنوں میں ان پروگراموں کے اثرات سے ذاتی طور پر محفوظ رہے مگر پروگراموں کی جھلکیاں نظر سے گزرتی رہیں اور پھر سوشل میڈیا پر اس بے حسی کے حوالے سے آنے والی پوسٹیں پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وبا کی عید بھی ہم نے اسی روایتی بے حسی کے طور پر منائی ہے۔ کہیں کسی رویے اور سوچ میں تبدیلی دکھائی نہیں دی۔ ہم کبھی بڑے بھی ہوں گے، یا پھر ایسے ہی رہیں گے؟بے حس اور لا تعلق! عید سادگی سے منانے کے سرکاری اعلانات کے بعد فل پارٹی، دھوم دھڑکا، تالیاں اور قہقہے!