ہندوستان کا اکھنڈ بھارت کا جنون بے قابو ہو چکا ہے۔کشمیر کو اٹوٹ انگ کب سے قرار دیا جا رہا ہے لیکن وہاں جو رویہ ہے وہ کسی دشمن ملک کے ساتھ بھی اتنے عرصے تک روا نہیں رکھا جا سکتا کجا یہ کہ آپ ان لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیں جو اس جگہ کے باسی ہیں جس سر زمین کو آپ اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں۔ اسکا واضح مطلب ہے کہ آپ کو اس زمین کی ضرورت ہے بھلے وہاں پر لوگوں کو جان سے مارنا پڑے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کئی دہائیوں سے جاری ہیں اور اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ حال ہی میں نیپال کی کونسل آف منسٹرز نے نیپال کے ساتوں صوبوں، 77ضلعوں اور 753 مقامی ڈویثرنز کے نقشے حدود کے تعین کے ساتھ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں لمپیادھورا، لیپولیک اور کالا پانی کے علاقے شامل ہیں۔ یہ فیصلہ بھارت کی طرف سے نیپال کی سر زمین پر قبضے کی کوشش کے بعد کیا گیاہے۔ ہندوستان کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 80 کلو میٹر طویل لیپولیک روڈ کا افتتاح کیا۔ اس سڑک کی تعمیرکے بعد بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی اور تبتی سطح مرتفع کے ایک ہندو یاتری مقام کیلاش مانسوروور کے درمیان راستہ مختصر ترین ہو جائے گا۔نیپال کا دعوی ہے کہ کیلاش مانسوروور تک کا راستہ لیپولیک سے ہوتا ہوا آتاہے ، اور یہ علاقہ نیپال کی ملکیت ہے۔ نیپال نے متنازعہ علاقے میں تعمیرہونے والی ہمالیائی لنک روڈ کے افتتاح کے خلاف احتجاج کیا ہے جو تبت اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک تین طرفہ جنکشن پر آتی ہے۔ نیپالی عوام نے اس کوشش کی بھر پور مذمت کی اور پر زور احتجاج کیا۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے ہندوستان کے "یکطرفہ فعل" کی بھرپور مذمت کی ہے اور بیان دیا کہ اس طرح کے اقدام دونوں ممالک کے مابین ہونے والی مفاہمت کے خلاف ہے۔"نیپال کی وزارت خارجہ نے کہا کہ "نیپال کی حکومت نے ہندوستان کے" لنک روڈ "کے نیپالی سرزمین سے گزرنے والے لپولیک (نیپال) کو ملانے والے ' سڑک کے افتتاح کے بارے میں جان کر افسوس ہوا ہے۔ ایک طرف ہندوستان ہر پڑوسی کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہے اور اپنی طاقت اور سائز کے بل بوتے پر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، دوسری طرف ملک کے اندر خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ نیا ڈومیسائل کا قانون جسکو ہندوستان کے اندر تمام اقلیتیں اور بہت سے ہندو دانشور اور سیاستدان مسترد کر چکے ہیں اب ایسا تجربہ مقبوضہ کشمیر میں کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ کشمیر میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دے لیکن اسے حاصل کیا ہو گا۔ کیا اس کوشش کے پیچھے کہیں نہ کہیں یہ خوف کارفرما ہے کہ اگر کسی دن استصواب رائے کرانا پڑ گیا جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہوگا، تو کم از کم اکثریت بھارت کے حق میں ہوگی۔ انکو شاید یہ یاد نہیں ہے کہ استصواب رائے میں آدھے نہیں پورے کشمیر نے ووٹ دینا ہے اس لئے ایک صدی بعد بھی کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق ملے گا تو جیتیں گے کشمیری ہی، اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے یقیناً ناکام ہونگے۔ ابھی تو اندرونی چیلنج جو ہندوستان کو درپیش ہیں ان سے نکلنا محال ہو رہا ہے جہاںہندوستان کی عوام دو ریاستوں میں پھنس چکی ھے۔ یہ دو چہروں والی ریاست میں ایک باہر کی دنیا کے لئے ہے جسکو وزیر اعظم واجپائی نے شائننگ انڈیا کا نام دیا تھا،دوسری طرف بھارت ہے جہاں بھوک اور افلاس کی چکی میں پستی ہوئی آبادی ہے جس کا نسلی اور مذہبی نفرت کے بیا نیے سے پیٹ بھرا جاتا ہے۔ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ذہنوں میں بھرا جا رہا ہے۔ گائے کے ذبح کرنے پر مسلمان زندہ جلا دیے جاتے ہیں لیکن بھارت بڑاگوشت برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ہندوستان کے تمام ھمسائے اس کے شر کا شکار ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، چائنا، سری لنکا سب کے ساتھ سرحدی جھگڑے جاری ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دنیا کوبھارت سے زیادہ ہندوستان کو دیکھنا پڑے گا۔ گائے کا مسئلہ اگرچہ ختم نہیں ہوا لیکن ہندو انتہا پسندوں کو کرونا کی صورت میں ایک اور بہانہ مل گیا ہے۔ معروف مصنف اور مورخ رامچندار گوہانے وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کوویڈ-19کا بحران مسلم مخالف جذبات اور اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کا موقع بن گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی اور مغربی ہندوستان کے بڑے حصوں میں مسلم مخالف جذبات ہمارے ہم وطنوں کے لیے پریشان کن پہلو ہے۔ گوہا کا کہنا ہے کے اسلاموفوبیا ہندوستان میں اور خلیج میں مقیم ہندوستانی تارکین وطن کی رسوائی کی وجہ ہے۔ ہندوستان کی عالمی سطح پر مقبولیت میں غیر معمولی کمی کا باعث بنا ہے اور اس نے ہندوستان کی ساخت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم مودی کو مثبت پیغام دینا چاہیے کہ کورونا وائرس نسل، مذہب، رنگ، ذات وغیرہ کو نہیں دیکھتا۔ وزیراعظم کو اتنا انتظار کیوں کرنا پڑا اور خلیجی ممالک کے ہمیں سزا دینے کے بعد ہی بولنے کی کیوں ضرورت پڑی؟گوہا نے کہا کہ مودی کی حکومت واضح طور پر ہندو اکثریت پسند حکومت ہے اور یہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت سے بہت مختلف ہے جس میں جارج فرنینڈی، ممتا بینر جی، جسونت سنگھ اور پشونت سنہا جیسے سیکولر راہنما شامل تھے۔ دوسری طرف خلیجی ریاستوں میں ہندوستان کے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی پیروی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ معروف صحافی خالد المنا نے بھارت کے ایک چینل کو دئے گئے انٹرویو میں واضح کہا کہ جب آپ ہندوستان میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں گے تو اسکا نتیجہ لا محالہ یہی نکلنا تھا کہ خلیجی ریاستوں میں اسکا رد عمل واضح ہوتا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی مذہب کی نظر سے بھارت کے ساتھ تعلقات کو نہیں دیکھا تھا لیکن آپ نے ہمیں مجبور کر دیا ہے۔ اکھنڈ بھارت کا جنون ہندوتوا کے پرچارکوں کو نفرت کی ایسی آگ میں جھونک چکا ہے جس میں ہندوستان اور اسکا سیکولر تصور بھسم ہو چکا ہے۔پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کو ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت ہے۔ بھارت کو ایک بار پھر ہندو اور غیر ہندو میں تقسیم کر کے ہی اکھنڈ بھارت بن سکتا ہے۔