یہ 19 ستمبر 1996ء کا دن تھا۔ جب بینظیر بھٹو بہت خوش تھیں۔ ملک کی وزیراعظم کیلئے یہ خوشی بہت ہی کم وقتی رہی۔ محض چند گھنٹے۔ یہ وہ دور تھا جب سب اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بینظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو میں اختلاف کی خلیج ختم نہیں ہوپا رہی۔ بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں اور بھائی ایک الگ سیاسی شناخت بناکر انتظامیہ کے کردار پر نالاں دکھائی دے رہا تھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ کی زندگی 18 ستمبر اور 20 ستمبر 2 اہم ترین تاریخیں ہیں کہ 18 ستمبر ان کا یوم ولادت اور 20 ستمبر ان کا یوم شہادت ہے۔ زندگی اور موت میں صرف ایک دن کا فرق ہے۔ یہ کیسا ستم ہے کہ 18 ستمبر کو اپنی سالگرہ منانے کے صرف ایک دن بعد یوم شہادت کا سوگ منانا پڑے۔ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے 18 ستمبر 1996ء کے روز اپنے چھوٹے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو 70 کلفٹن میں کیک او پھولوں کا تحفہ بھجوایا تھا اور اپنے پیار بھرے تہنیتی پیغام میں کہا تھا کہ آپ مجھے ہمیشہ یاد رہتے ہیں کیونکہ ہم ایک ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب مرتضیٰ بھٹو اپنا ایک نیا سیاسی بیانیہ بناکر بھٹو کے مداحوں اور شیدائیوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہے تھے اور یہ بھی تھا کہ وہ اپنی ہمشیرہ سے اس سیاسی وابستگی کا اظہار نہیں کررہے تھے، جس کا مظاہرہ کرکے بینظیر بھٹو اپنے نامور والد کی سیاسی وراثت کا جھنڈا اٹھائے دوسری بار ملک کی وزیراعظم بن چکی تھیں۔ لیکن یہ بات بھٹو فیملی کے تمام ہی قریبی لوگ جانتے تھے کہ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو کس درجے Miss کرتے تھے۔ خود بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب دختر مشرق میں ان سہانے دنوں کا تذکرہ کیا ہے۔ جب بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو چھوٹے تھے۔ یہ ان دنوں ڈھلتی شام کے سائے میں جب کبھی 70 کلفٹن کی چھت پر چڑھتے تو وہاں دور سے نہ صرف انہیں نیلگوں پانی کی وہ سمندری لہریں نظر آتیں بلکہ رات کے سناٹے میں بھی یہ دونوں بہن بھائی ان لہروں کی ارتعاش سے پیدا ہونے والی آواز کو بھی انجوائے کرتے۔ بینظیر کو وہ دن بھی یاد آتے تھے جب وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ملک کے طول و عرض کے دوروں پر جاتے اور اس وقت کے ایک ایک لمحے کو یاد کرکے محظوظ ہوتے۔ وہ بھائی اب ذرا ان سے خفا تھا۔ کہتے ہیں کہ ماں کے بعد بہن اپنے بھائیوں سے محبت کرتی ہے۔ بینظیر بھٹو بھی اسی کیفیت اور جذبات سے گزر رہی تھیں۔ بہن نے اپنی محبت کے اظہار کیلئے بھائی کی سالگرہ پر اسے Wish کرنے کیلئے گلدستہ اور تہنیتی پیغام بھجوایا۔ ساتھ میں منہ میٹھا کرنے کیلئے کیک کا تحفہ بھی۔ فطری بات تھی مرتضیٰ اپنی بہن کی محبت بھرے انداز پر خوشی سے نہال تھا۔ لیکن ابھی خوشیوں کے لمحات ان کے وجود میں لہرا رہے تھے کہ 20 ستمبر کی شب شروع ہونے سے کچھ دیر بعد ہی ان کی بہن محترمہ بینظیر بھٹو کو یہ اطلاع ملی کہ ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو پولیس فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوکر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ وہ پریشانی کے عالم میں کراچی پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بھائی ان سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگیا ہے۔ یہ ان کے اور ان کی والدہ کیلئے الم کی گھڑی تھی۔ اس وقت وہ جب مڈ ایسٹ اسپتال پہنچیں تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ انہیں وہ لمحات بھی یاد آگئے جب انہوں نے راولپنڈی کی جیل میں 3 اپریل 1979ء کی دوپہر اپنے والد گرامی سے آخری ملاقات کی تھی۔ پھر اگلے دن صبح جب ایک اہلکار ریسٹ کیمپ میں انہیں یہ اطلاع دے رہا تھا کہ ان کے نامور والد کو گزشتہ رات پھانسی دیدی گئی ہے۔ اس نے بھٹو صاحب کا شلوار کرتا' انگوٹھی اور پین ایک بیٹی کو تھماتے ہوئے باپ کی موت کی اطلاع سنائی تھی۔ اسپتال میں بینظیر کو مرتضی کے ماتھے کو چومتے ہوئے وہ وقت بھی یاد آگیا۔ جب وہ اپنے سب سے لاڈلے اور چھوٹے بھائی میر شاہنواز بھٹو کی میت لیکر فرانس سے لاڑکانہ پہنچی تھیں تو عوام کے جم غفیر نے دکھ اور غم کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ جس یکجہتی کا اظہار کیا تھا وہ لمحہ بھی ان کے ذہن نشین تھا۔ پھر مقدر اور حالات کا جبر دیکھئے۔ مرتضیٰ کی موت کے غم سے ابھی بینظیر سنبھل بھی نہیں پائی تھیں کہ انہی کی پارٹی کے قابل اعتماد ساتھی صدر فاروق لغاری نے اپنی لیڈر کیخلاف 58-2B کے صدارتی اختیار کا ہتھیار استعمال کر ڈالا۔ پاکستان کی تاریخ نہ جانے ایسے کتنے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں بھٹو خاندان پر 26 سال پہلے یہ کیسی قیادت ٹوٹی تھی۔ سچ پوچھیں تو بیگم نصرت بھٹو اپنے جوان بیٹے کی جدائی کے اس غم کو نہ سہہ سکیں۔ اور یہ غم بھی انہیں بتدریج موت کی وادی تک لے گیا۔ مرتضیٰ بھٹو کو نہ جانے اور کتنے کام کرنے تھے۔ کتنے خواب اس نے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ اس عمر میں بھلا اس طرح کوئی ہمیشہ کیلئے نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور وہ بھی مرتضیٰ جیسا متحرک توانائی اور زندگی سے بھرپور شخص انہیں تو بہت عرصے تک اپنے دوستوں ساتھیوں گھر والوں کے درمیان رہنا چاہئے تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مرتضیٰ ایک زندہ رہنے والی یاد کی طرح اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں رہیں گے۔ وہ خوب بولتے تھے اور جم کر بولتے تھے ،نڈر تھے لیکن کچھ ضرورت سے زیادہ خطرہ مول لینے والے انسان تھے۔ اپنے نامور والد کی طرح ڈٹ جانے والے انسان تھے۔ وقت بڑا استاد ہوتا ہے۔ انسان کچھ سوچتا لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور ہوتا ہے اور قدرت اپنے فیصلے بدلا نہیں کرتی۔ مرتضیٰ بھٹو کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے نامور لیڈر کے وہ صاحبزادے ہیں۔ زندگی کے ابتدائی سال شفقت' پیار' ناز نخروں میں گزرے۔ پھر حالات اور وقت کے ناموافق تھپیڑوں نے انہیں یہاں سے وہاں تک اڑائے رکھا۔ خاندانی پس منظر کی اجلی تصویر اور پھر زمانے کی آزمائشیں ان کی شخصیت کا رنگ و روپ بدلتے رہے۔ حالات نے نہ جانے انہیں کن کن آزمائشوں سے گزارا۔ پرسکون اور پرتعیش زندگی سے حالات کی خوفناک پرتلاطم لہروں میں غوطے کھاتے رہے۔ بھو خاندان پر نظر ڈالیں تو اس گھرانے کے تمام افراد نے شہرت اور عروج کی داستانیں بھی رقم کیں' لیکن ان کی زندگی کا اختتام افسوسناک انداز میں ہوا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سب کی مغفرت فرمائے۔