جے پور راجستھان کا ایک عجیب تجربہ میرے ان تجربات میں ہے جن کا ایک در تحیر کی طرف کھلتا ہے۔ اس شام ہم سٹی پیلس یعنی جے پور کا شاہی محل دیکھنے پہنچے۔جہاں کئی عمارات ایک ہی جگہ موجود ہیں۔گاڑی سے اترے تو سامنے ہی ایک بلند عمارت نے نظر اپنی طرف کھینچ لی ۔یہ حیران کن طرز تعمیرپہلے کبھی دیکھا نہیں تھا۔یوں سمجھ لیجیے کہ سرخ اور گلابی پتھروںکا ایک بہت بڑا شہد کا چھتا سامنے کھڑا تھا۔ہر طرف جھروکے ہی جھروکے۔کھڑکیاں ہی کھڑکیاں جن میں سنگ مرمر کی جھجریاں(جالیاں) لگی ہوئی تھیں۔یہ مشہور و معروف ’ ’ ہوا محل‘‘ تھا۔ راجپوت اپنی عورتوں کے پردے کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ہوا محل دراصل مہاراجہ پرتاپ سنگھ کا 1799ء میں بنایا ہوا زنانہ محل تھا۔یہ مخروطی شکل کی پانچ منزلہ 50 فٹ بلند فصیل نما دیوار ہے جس میں 953جھروکے اور کھڑکیاں موجود ہیں۔جن کمروں میں یہ جھروکے تھے ان میں جھروکے کے سامنے فوارہ تھا۔چنانچہ ہوا ٹھنڈی ہوکر پہنچتی تھی۔یہ محل پردے میںرہتے ہوئے عورتوں کے لیے باہر میدان اور سڑک پر ہونے والے کھیل تماشے دیکھنے کا بھی کام کرتا تھا اور ہوادار ہونے کے باعث نہایت پسند کیا جاتا تھا۔میںاس کے سامنے کھڑے ہوکر تادیر اسے دیکھا کیا ۔زندگی اتنی گنجائش کہاں دیتی ہے کہ بار بار جے پور آکر اس کیفیت سے گزرا جائے ، اس موسم میں رہا جائے ۔زندگی بیک وقت بہت مہربان اور بہت سفاک ہوتی ہے ۔ہم ہوا محل کے ایک طرف سے ہوکر داخل ہوئے تو اندازہ ہوا کہ یہ دراصل محل کا عقب تھا ۔شاہی محل سامنے تھا ۔لیکن شاہی محل سے پہلے ہمارا میزبان ہمیں’ ’ جنتر منتر‘‘ کی طرف لے گیا۔ جنتر منتر دراصل رصد گاہ ہے جو اجرام فلکی کے مشاہدے، چاند ،سورج گرہن کے اندازے ،وقت کے درست تعین اور سورج گھڑی وغیرہ کے لیے بنائی گئی تھی ۔انیس مختلف چھوٹی چھوٹی عمارات کا یہ مجموعہ 1734میںراجہ جے سنگھ دوم نے بنوایا تھا اور اسی سے راجہ کی اس فن سے ذاتی د لچسپی معلوم ہوتی ہے ۔ مہاراجہ جے سنگھ راجستھان کی تاریخ کے بڑے راجوں میں سے ہے ۔45سال حکمرانی اور جے پور کی منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہر کی بنیاد اسے تاریخ میں اہم جگہ دلواتی ہیں۔شہر کے وسط میںجے پور کا شاہی محل بھی اسی نے بنوایا تھا۔اور شاہی محل کسی ایک عمارت کا نام تھوڑی ہوا کرتے تھے۔پورا محل راجپوت اور مغل انداز تعمیر کاسنگم ہے۔ احاطے، عمارتیں، مندر، ایوان، سبزہ زاررہائش گاہیں۔جے پور کا شاہی خاندان اب تک اس محل کے ایک حصے میں رہائش پذیر ہے۔باقی حصہ میوزیم اور سیاحوں کی دسترس میں ہے۔ہم ’ ’ وریندرا پول ‘‘ دروازے سے داخل ہوئے احاطے دیکھے،’ ’ سبھا نواس‘‘ یعنی دیوان عام کی سیر کی ۔’ ’ چندرا محل‘‘ کی خوبصورتی سے آنکھیں سیراب کیں،’ ’ پریتم نواس‘‘ چوک پر وقت گزارا،’ ’ مبارک محل‘‘ کے برآمدوں میں راجوں کی طرح ٹہلے اور پھر واپس دیوان خاص یعنی’ ’ سراواتو بھدرا‘‘ میں اس جگہ آکھڑے ہوئے جہاں تلواریں اور ڈھال گلابی دیوار پر ایک دائرہ بناتی تھیں۔ہم ایک شان سے یہاں کھڑے تھے لیکن افسوس ناقدرے لوگ ہم سے ملے بغیر گزرتے جاتے تھے۔گزرنے والے سیاحوں کو کون بتاتا کہ امجد اسلام امجد ، گروندر کوہلی اور سعود عثمانی اپنی اپنی ذات میں خود مہاراجہ تھے۔بلکہ سوائی مہاراجہ ۔حیف، زمانے نے قدر نہ کی ۔ شاید دیوان خاص میں ہی چاندی کے وہ دو بڑے بڑے ظروف دیکھے تھے جو دنیا کے سب سے بڑے چاندی کے برتن ہیں ۔5.2 فٹ اونچے ،340کلوگرام وزنی ،14000لٹر پانی کی گنجائش رکھنے والے یہ ظروف مہاراجہ سوائی مادھو سنگھ دوم نے1901ء میںایڈورڈ ہفتم کی تاج پوشی کے موقع پر انگلینڈ کے سفر میں گنگا جل ساتھ لے جانے کے لیے بنوائے تھے۔’ ’ سوائی‘‘ کا لفظ بھی مزے دار روایت رکھتا ہے۔کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر،جے سنگھ کی شادی میں شریک ہوا تھا۔اس نے دولہا سے مصافحہ کیا تو جے سنگھ نے کچھ جرأت کرکے کہا کہ اس مصافحے کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ شہنشاہ ہمیشہ جے سنگھ کی سرپرستی اور اس کی سلطنت کی حفاظت کریں گے۔یہ شاہی ادب آداب کے قدرے خلاف تھا لیکن اورنگ زیب نے ناراض ہونے کے بجائے جے سنگھ کو سوائی کا لقب عطا کیا ۔یہ وہی لفظ ہے جو اردو اور ہندی میں ایک اور چوتھائی کے معنوں میں ہے ۔یعنی یہ اکیلا سوا کے برابر ہے ۔اس دن سے راجستھان کے مہاراجوں نے نہ صرف سوائی لقب اپنے ناموں کے ساتھ اختیار کرلیابلکہ اپنے جھنڈے کے ساتھ ایک چوتھائی جھنڈا بھی اپنے محلوں اور قلعوں پر لہرا کر اسے عملی شکل دے دی۔ مہاراجہ سوائی مان سنگھ دوم میوزیم میں اسلحے اور تصاویر کا بڑا ذخیرہ ہے ۔راجوں کی تلواریں،خود، خنجر اور دیگر مروّج اسلحہ ۔اسی طرح قیمتی روغنی تصاویر ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ بیشتر صورتوں میں یہ راجستھان سے متعلق ہے اورانہیں ایک نظر ہی دیکھا جانا ممکن تھا۔اور زندگی ہر قابل ِ دید جگہ پر بس اتنی ہی گنجائش دیتی ہے۔بہت بار تو اتنی بھی نہیں۔ جے پور سے واپس پاکستان آکر کئی سال گزر گئے ۔منظر بھولے بسرے ہوگئے اور خد و خال دھندلانے لگے تو ایک رات میں سوتے سوتے چونک کر اٹھا۔ ہوا محل میرے سامنے تھا اورمیں گویا سڑک پر کھڑ ا اسے تکتا تھا۔اپنے بے شمار جھروکوں اورسنگ مرمر کی جالی دار کھڑکیوں کے ساتھ ہوا محل پھر میرے سامنے تھا۔اپنے سارے خد وخال اور تازہ نقوش کے ساتھ۔اس منظر ،اس موسم اور اس کیفیت نے ایک نیلگوں دھند کی طرح مجھے لپیٹ میں لے لیا۔میں نے اس رات ایک نامکمل نظم کہی جو ہنوزتکمیل کے انتظار میں ہے۔وہ رات پھر نزول کرے اور وہ کیفیت پھر باہیں کھولے تو شاید کبھی نظم بھی مکمل ہوجائے ۔ ہوا محل کے مقابل کھڑا ہوا تھا میں پھسلتی ریت مری مٹھیوں سے گرتی تھی گلابی رنگ کی اینٹوں میں ،سرخ چوکھٹوں میں جھروکے ،کھڑکیاں ،دروازے،برجیاں ، گنبد جھروکے، جن کے اُدھر چہرے جگمگاتے تھے گلابی ہونٹ، سیہ بال، ریشمی رخسار سہیلیوں کی طرح چھیڑے جارہی تھی ہوا شہابی شام کی رمز،آبنوسی رات کے بھید بیان کرتے ہوئے کھلکھلا رہی تھی ہوا حریر و ململ و کم خواب و اطلس و ریشم سیاہ رات کے پردوں میں جھلملاتے تھے ہوا محل کے مقابل میں تک رہا تھا اسے ہزار طرح کا جادواس ایک اسم میں تھا زمانہ موم کے مانند،قطرہ در قطرہ پگھلتا جاتا تھا اور مجھ میںجلتا جاتا تھا کبھی کبھی مری آنکھیں،کبھی کبھی مرا دل میں اپنے جسم سے باہر کسی حصار میں تھا جو منتظر تھا، کوئی اُس کے انتظار میں تھا یہ دو صدی کے زمانے ،یہ لمحۂ موجود گزرتا وقت کسی خواب سے گزارتا تھا کسی صدا نے شب ِمنہمک پہ دستک دی نہ جانے کون مجھے دور سے پکارتا تھا ذرا سا چونک کے دیکھا تونیلی دھند کے پار مری طرف کوئی آتا ہوا دکھائی دیا سیاہ چشم،کھڑے نقش،چمپئی رنگت تلاشتی ہوئی آنکھیں،پکارتے ہوئے لب مجھے تو خیر ہمیشہ سے چاہ تھی اس کی مگر یہ اس کو بھلا مجھ میں کیا دکھائی دیا ؟ شاعری نے اپنی پراسراریت سے مجھے ہمیشہ حیران رکھا ہے اور تحیر کے اس باب کا ایک ہوا محل اس رات کی طرف بھی کھلتا ہے۔