اس سے پہلے کہ اپنے اس بیانئے کو جو گزشتہ کالموں میں تاریخی حوالوں سے دیتا رہا ہوں، کہ مُلّا کبھی کابل کے تخت پر نہیں بیٹھے ،ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کردی تھی اور اس کے لئے سند کے طور پر شاعر ِ مشرق علامہ اقبال کے اس شعر کا بھی حوالہ دیا تھا کہ ملا کی اذاں اور ہے،مجاہد کی اذان اور یہ درست کہ ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان مجاہدین کی ایک دہائی تک حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ ۔ ۔ اوریہ بھی درست کہ طالبان کا خود ساختہ امیر المومنین مُلّا عمر 1996ء سے 2001ء تک دو تہائی افغانستان پر حکومت کا دعویدار رہا۔ مگر یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ طالبان کی پانچ سال حکومت تو رہی لیکن ان کے امیر المومنین کبھی افغانستان کے دارالخلافہ کابل میں داخل نہیں ہوسکے۔ دراصل اس وقت بھی عملاً حکومت اُسامہ بن لادن ہی کی تھی جن کے سعودی عرب سمیت بیرون ِ ملک سے آئے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں عملاً افغان طالبان کے نام پر افغانستان پر اپنی امارت اسلامیہ کا پھریرا لہرانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ میں 9/11پہ نہیں جاؤں گاکہ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔مگر خلاف ِمعمول ایک جسارت کررہا ہوں۔عموماً اپنے لکھے کے حوالے سے جو منطقی اور مثبت سوال اٹھائے جاتے ہیںاُن کا جواب دینے کی ضرور کوشش کرتاہوں۔مگر جب اس طرح کا تبصرہ کیا جائے جیسا کہ میرے ان کالموں پر ایک چینل میں یہ سوال اٹھایا گیاکہ میں افغانستان کی تاریخ سے ناآشنا ہوں۔سینئر سے یہ بھی سبق سیکھا کہ اپنی ذات کے حوالے سے کبھی براہ راست جواب نہ دیا جائے۔مگر سوال جس حوالے سے کیا گیا،میری خوش نصیبی کہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے افغانستان کی چار دہائی کی تاریخ کا نہ صرف مشاہدہ کرتا رہا ہوںبلکہ عملی طور پر طورخم سے کابل ،کابل سے قندھار ،قندھار سے ہرات اور پھر جلال آباد سمیت ایک نہیں ۔ ۔ ۔ کم از کم درجن بھر بار نہ صرف سفر کیا بلکہ روس کی مدد سے آنے والے پہلے افغان صدر نور محمد تر کئی سے لے کر سابق افغان صدر حامد کرزئی سے بالمشافہ انٹرویو بھی کیا۔میری پہلی کتاب ’’طورخم کے اُس طرف‘‘ 1979ء میں آچکی تھی۔ جس کی کراچی پریس کلب میں تقریب بھی ہوئی تھی۔اپریل سن1979ء میں جب ہمارا رسالہ ضیا ء الحق کی آمریت میںبند ہوا،اور فراغت ہی فراغت تھی ،تو دوستوں سے سو ،سو روپے چندہ کر کے ادھار لے کر ایک ہزار روپے لیے اور ایک متجسس صحافی کی حیثیت سے اِ س ریجن میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی کو دیکھنے کے لئے پشاور روانہ ہوگیا۔ پشاور میں ہمارے ایک سینئر کامریڈ نے اپنے گھر پر رکھا ۔اُس وقت تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ ویزے کے ذریعے لوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔پشاور سے براہ راست کابل تک بس چلتی تھی۔جس کا کرایہ صرف 50روپے ہوتا تھا۔سینئر کامریڈ نے کرایہ بھی دیا ۔ہفتہ بھر کابل میں ٹھہرنے کے لئے خرچہ بھی دیا ۔اوراُس وقت کابل میں جلا وطن نیشنل عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اجمل خٹک کے نام ایک چٹھی بھی دی۔ سو ،جولائی 1979ء میں ایک خواشگوار صبح گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی ایک بس میں کابل کے لئے روانہ ہوا۔تو ایک طرف خوف بھی غالب تھا ، اور دوسری طرف عمر کے اس پہر میں جو ایک ولولہ انگیزی ہوتی ہے،وہ بھی اپنے شباب پر تھی۔دوپہر کا کھانا جلال آ باد میں کھایا۔سہ پہر کابل پہنچے ۔پاکستانیوں کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔وہیں سے اجمل خٹک سے فون پر رابطہ کیا۔اورشام کو اُن کی قیام گاہ پر ایک پر تکلف کھانے پر تفصیلی ملاقات ہوئی۔اجمل خٹک سے ہماری واقفیت کراچی سے تھی۔جب ہم نیشنل عوامی پاٹی کے طلباء ونگ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں سرگرم ِ عمل تھے۔ اجمل خٹک سے اپنی آمد کا مدعابتایاکہ ایک کتاب لکھنے کا سودا سر میں سمایا ہوا ہے۔اور اگر اس کے لئے افغان حکومت میں شامل قائدین سے ملاقات ہوجائے تو کیا ہی اچھی بات ہو۔وہیں پر ہماری ملاقات صوفی جمعہ سے بھی ہوئی۔جو نیپ اور کمیونسٹ پارٹی کے نمائندے کی حیثیت سے کابل حکومت میں بڑے معبتر سمجھے جاتے تھے۔ہمارے صوفی جمعہ نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے ۔ ۔۔ ’’فریبِ ناتمام‘‘ ۔۔۔ کابل میں بیتے تیس برسوں کا جو احوال انہوں نے لکھا ،وہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔مگر بہت احترام کے ساتھ ،صوفی جمعہ اپنی قربانیوں کے صلے میں جو انہیں مقام بعد میں نہیں ملا، اُس پر اپنی کتاب میں ایسے مشتعل نظر آئے کہ اِس سے بالواسطہ طور پر خود اُن کو اور جس causeسے وہ وابستہ تھے،اور جو کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہے،نقصان ہی پہنچا۔مگر یہ صوفی جمعہ ہی تھے ،جنہوں نے ہم پر ایک ایسا احسان کیا،کہ جس کے آج تک مقروض ہیں۔ اُس وقت ہم بس نام کی حد تک ایک صحافی تھے۔ درجن ،دو درجن مضمون لکھے اور انٹرویوز کئے ہوں گے۔صوفی جمعہ نے محض تین بعد ہماری ملاقات کا اہتمام اس وقت کے افغان صدر نور محمد تر کئی سے کرادیا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلے دو دن بعد یعنی یہاں ہماری پاکستان واپسی سے قبل ہی حکومت کے سرکاری اخبار’ کابل ٹائمز ‘میں صفحۂ اول پر ہماری تصویر اور شہ سرخی کے ساتھ چھپ بھی گیا۔ کابل سے واپسی ہوئی تو کراچی میں روزنامہ مساوات کی بحالی کے لئے تحریک چل رہی تھی۔ سو ہمارا نام بھی اس فہرست میں شامل کردیا گیا جنہیں اگلے دن کراچی کے ریگل چوک سے گرفتاری دینی تھی۔اس زمانے میں مارشل لاء کورٹ سزائیں دیتی تھیں۔ سو چھ ماہ کی قید ِ بامشقت کی سزا ایک میجر سے سن کے ہتھکڑیاں ڈال کر حیدر آباد جیل روانہ کردئیے گئے۔مگر تین ماہ بعد رہائی مل گئی۔اس دوران ہم ’’طورخم کے اس طرف ‘‘کے نام سے اپنا سفر نامہ مرتب کرچکے تھے اور جس کا ذکر بھی کیا۔کہ اُس کی تقریب ِ رونمائی بھی کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ 1989ء میں افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی دعوت پر صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ دو بار کابل جانا ہوا۔اور اپنی اس کابل یاترا پر بعد میں ایک کتاب ’’انقلابی افغانستان میں چند روز‘‘بھی لکھی۔ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے بعد حیدر آباد جیل اور کابل سے جلا وطن بلوچ ،پختون قیادت واپس آچکی تھی۔دلچسپ اتفاق دیکھیں کہ دہائی بھر بعد پھر پریس کلب میں ہی ہماری اس کتاب کی تقریب ِ رونمائی ہوئی ۔جس کی صدارت محترم اجمل خٹک نے کی تھی۔90ء کی ساری دہائی کے دوران تو خانہ جنگی تھی۔اور مذہبی شدت پسندوں کا ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور اس طرف قبضہ تھا ۔مگر ہمیں پی آئی اے کی جو پہلی فلائٹ کابل چلی ،اُس میں ضرور ایک دن کا سفر کرنے کا موقع ملا۔2008 ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ سرکاری دورے میں شامل تھے۔ یہ ساری کتھا ،لکھ تو دی ۔مگر اب یہ احساس ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ لکھ کر خود نمائی تو غالب نہیں ہوگئی۔مگر اس سوال کا جواب بھی دینا بہر حال ضروری سمجھا کہ جن موصوف پروڈیوسر نے تہمت لگائی کہ میں افغانستان کا کوئی ایکسپرٹ نہیں ہوں۔۔۔ ایکسپرٹ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں ۔ہاں،افغانستان کی چار دہائی کی خونریز تاریخ کا عینی شاہد بھی رہا ہوں اورایک طالب علم کی حیثیت سے چند کتابیں لکھنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔