اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے خاتون شہری کی ولدیت تبدیل کرنے اور شناختی کارڈ بلاک ہونے کے خلاف درخواست پرفیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔ خاتون عروج کی درخواست پرڈی جی آپریشن نادرا عدالت میں پیش ہوئے ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نادرا پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نادرا کبھی کسی کی شہریت ختم کر دیتا ہے ،کبھی شناختی کارڈ بلاک کرتا ہے ، نادرا آخر کر کیا رہا ہے ؟بار بار نادرا کو سمجھا چکے ہیں کہ آپ ایک ایگزیکٹو اتھارٹی ہیں،عدالت دیکھ رہی ہے کہ شہری کے حقوق کے خلاف نادرا کر کیا رہا ہے ۔ڈی جی آپریشن نادرا نے عدالت سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میں نے ابھی چارج سنبھالا ہے ، نادرا کے کنڈکٹ پر معافی مانگتا ہوں 1999میں درخواست گزار کی والدہ نے رجسٹریشن کے لئے درخواست دی، درخواست گزار کی تاریخ پیدائش 1993کی ہے اس کے بعد والد نے رابطہ کر کے کہا یہ میری بیٹی نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا نادرا نے خاتون کا برتھ سرٹیفکیٹ ، ڈومیسائل اور تعلیمی اسناد پر ولدیت چیک کی ؟ نادرا کے پاس کیا اختیار ہے کسی کی شناخت تبدیل کر دے ؟ چیف جسٹس نے نادراکے وکیل کو تنبیہہ کی کہ سوچ سمجھ کر بیان دیجئے گا اس کے سنگین نتائج ہوں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نادرا کو یوں زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کسی کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے اور نادرا کو احساس ہی نہیں ہے ،کیا آپ نے نیا آرڈیننس پڑھا ہے ؟جس پرنادراکے وکیل نے کہاکہ جی پہلے کورٹ سے ڈگری لینا ضروری ہے ۔ عدالت نے کہا کہ نئے آرڈیننس کے مطابق کوئی بچہ ڈی این اے سے انکار کرے تو اس کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، نادرا ایک شناختی کارڈ جاری کرنے کے بعد اس کے ریکارڈ میں خود تبدیلی نہیں کر سکتا ، کسی کی شہریت ختم کرنا نادرا کا اختیار نہیں، شہریت ختم کرنا صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے ، ولدیت کے تعین کے لئے بچے کی مرضی کے بغیر اس کا ڈین اے ٹیسٹ نہیں لیا جا سکتا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے اب پاکستانی سپریم کورٹ کا بھی ایسا ہی فیصلہ موجود ہے ۔