ایک غائبانہ خیر اندیش اور مہربان حاجی میاں منظور احمد نے یہ واقعہ شیئر کیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’ہماری فیکٹری کے قریب ایک ناشتہ پوائنٹ ہے۔ اکثر وہاں ناشتہ کرنے جاتے ہیں۔ ناشتے والے کے پاس کافی رش ہوتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا کہ ایک شخص آتا اور بھیڑ کا فائدہ اٹھا کر چپکے سے پیسے دیئے بغیر نکل جاتا ہے۔ ایک دن جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو میں نے چپکے سے ناشتہ پوائنٹ کے مالک کو بتا دیا کہ ’’وہ والا بھائی‘‘ ناشتہ کر کے بغیر بل دئیے رش کا فائدہ اْٹھا کر نکل جاتا ہے۔آج یہ جانے نہ پائے‘ اس کو رنگے ہاتھوںپکڑنا ہے۔ میری بات سن کر ناشتہ پوائنٹ کا مالک مسکرانے لگا‘ مجھ سے کہا اسے نکلنے دو‘کچھ نہیں کہنا‘بعد میں بات کرتے ہیں ۔حسبِ معمول وہ بھائی ناشتہ کرنے کے بعد ادھر اْدھر دیکھتاہواجھانسہ دے کر چپکے سے نکل گیا۔میں نے ناشتے والے مالک سے پوچھا کہ اب بتاؤ اسے کیوں جانے دیا؟ کیوں اْس کی اس حرکت کو نظر انداز کیا؟جو جواب اس ناشتے والے مالک نے دیا‘ وہ میرے چودہ طبق روشن کر گیا۔کہنے لگا کہ اکیلے تم نہیں‘ بہت سے لوگوں نے اس کو نوٹ کیا اور مجھے بتایا۔کوئی نہ بتاتا تو مجھے خود بھی پتہ ہے اس کی اس حرکت کا‘ کہنے لگا کہ یہ سامنے گلی میں بیٹھا رہتاہے اور جب دیکھتا ہے کہ میری دوکان پر رش ہو گیا ہے تو چپکے سے آ کر کھانا کھا کر نکل جاتا ہے۔میں ہمیشہ اس کو نظر انداز کر دیتا ہوں اور کبھی روکا نہ پکڑا اور نہ کبھی بے عزت کرنے کی کوشش کی‘ مجھے لگتا ہے کہ میری دوکان پر رش ہی اس بندے کی دْعا سے لگتاہے۔یہ سامنے بیٹھ کر دعا کرتاہو گا کہ یا اللہ اس دوکان پر رش ہو تو میں اپنی کارروائی ڈال کر نکلوں۔اور سچ میں رش ہوجاتا ہے۔میں اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس دْعا اورقبولیت کے معاملے میں ٹانگ اڑا کر اپنی بدبختی کو دعوت نہیں دینا چاہتا۔یہ میری طرف سے نظر انداز ہی ہوتا رہے گا اورہمیشہ ایسے کھانا کھاتا رہے گا‘ میں کبھی اس کو پکڑ کر بے عزت نہیں کروں گا ؟ یہ واقعہ پڑھ کر مجھے روحانی سکالر سید سرفراز شاہ صاحب یاد آئے‘ شاہ صاحب اپنے حلقہ نشینوں کو ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ اپنے رزق اور کمائی میں دوسروں کو شریک کریںاور اللہ تعالیٰ سے ’’کثرت‘‘ کے بجائے ’’برکت‘‘ کی دعا کریں‘ ’’چالیس علمی نشستیں‘‘ کے عنوان سے ان کی تازہ کتاب زیر طبع ہے‘ شاہ صاحب نے برکت اور کامیابی کا فرق ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’انسان کی نظر میں برکت کا مطلب ہے زیادہ پیسہ آ جانا اور جب تک ایسا نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کمائی میں برکت نہیں ہے۔ جب انسان کے پاس پیسہ آ جاتا ہے تو اس کو پتا چلتا ہے کہ جب اس کی کمائی کم تھی تو اس کے اخراجات اس میں پورے ہورہے تھے لیکن اس کی آمدنی کئی گنا بڑھ چکی ہے پھر بھی اخراجات پورے نہیں ہورہے۔ تب اس کو زیادتی اور برکت کا فرق پتا چلتا ہے‘ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی آمدنی میں رب تعالیٰ کو حصہ دار بنا لے یعنی اپنی آمدنی کا کچھ حصہ رب تعالیٰ کے لیے مختص کر کے اللہ کے بندوں پر خرچ کرے۔ رب تعالیٰ نے کبھی نہیں پوچھا کہ جو رزق میں عطا کر رہا ہوں وہ کہاں خرچ کرو گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رزق میں برکت ہو تو اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لیے مختص کر کے اس کے بندوں میں تقسیم کردیں۔ کوشش کریں کہ اس طرح تقسیم کریں جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیے ہیں‘ اس کے بعد آپ اور لوگوں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ رزق میں شاید زیادتی تو نہ ہو لیکن برکت ضرور ہوگی۔ برکت اور کامیابی کی تعریف ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں لاہور میں دو ہستیاں مدفون ہیں ایک وہ جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا اور اس کا مقبرہ کئی ایکڑ پر محیط ہے‘ اب وہاں پر لوگ پکنک کے لیے ضرور جاتے ہیں لیکن صرف چند افراد ہی ہوں گے‘ جو اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوں گے۔ دوسری ہستی داتا گنج بخشؒ ہیں‘ جن کے پاس نہ پوری چھت تھی‘ نہ پورا کپڑا اور نہ ہی پیٹ بھر کر روٹی تھی لیکن آج ان کے لنگر سے روزانہ ہزاروں افراد کھانا کھاتے ہیں۔ وقت کے حکمران ان کے دربار کی حاضری دیتے ہیں‘ اب یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم جان جائیں کہ درحقیت کامیابی اور عزت کس میں ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے ایک نشست میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور دوسروں کو اپنے رزق اور کمائی میں شریک کرنے کاطریقہ بھی بتایا: ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا طریقہ میں ایک قصے سے بیان کرتا ہوں جوکہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔ ایک صاحب اپنے دور کے امیر ترین آدمی تھے لیکن زمانے کی مار کی وجہ سے ان کا کاروبار بالکل ختم ہو گیا لیکن جب ان کا اچھا وقت تھا تو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے ہم پلہ افراد میں طے کردی تھی‘ جب لڑکے والوں کی طرف سے ان پر شادی کا دبائو بڑھنے لگا تو انہوں نے اپنے ایک پرانے دوست سے مدد لینے کا سوچا اور اس سے ملاقات کے لیے چلے گئے اور اس کوتمام احوال سنا کراس سے مدد مانگی تو دوست نے کہا کہ اس کے پاس تو اتنی رقم نہیں ہے لیکن ایک بزرگ ہیں جو آپ کی مدد کرسکتے ہیں اور وہ اتنی خاموشی سے مدد کرتے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ وہ صاحب ان بزرگ کے گھر چلے گئے اور ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک پرنور چہرے والے بزرگ اندر سے تشریف لائے۔ ان صاحب نے اپنے دوست کا حوالہ دیا اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ جب ان بزرگ نے رقم کی مقدار سنی تو ان کو بے نقط سنا ڈالی۔ وہ صاحب مایوس ہو کر اپنے دوست کے پاس آ گئے اور بتایا کہ ان بزرگ نے ان کو بے نقط سنائی اور گھر سے بے عزت کر کے نکال دیا۔ دوست نے پوچھا کہ انہوں نے کون سے الفاظ ادا کئے تھے تو ان صاحب نے ان کے الفاظ دہرا دیئے۔ دوست نے کہا کہ ابھی میرا ایک پرانا دوست آیا تھا اور اس نے مجھے میرا ادھار لوٹایا ہے تو وہ اتنی ہی رقم ہے جتنی آپ کو چاہیے۔ وہ صاحب خوشی سے وہ رقم لے کر چلے گئے اور بیٹی کی شادی کردی۔ کچھ عرصے بعد ان صاحب کے حالات بہتر ہوئے‘ وہ ادھار رقم واپس کرنے کے لیے اپنے دوست کے گھر پہنچے تو ان کے دوست نے روتے ہوئے گھر کا دروازہ کھولا۔ ان صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا‘ دوست نے بتایا کہ اس بزرگ کی وفات ہو گئی ہے جن سے تم رقم ادھار لینے گئے تھے۔ ان صاحب نے اپنے تجربے کی روشنی میں کہا کہ تم ان کے لیے کیوں رو رہے ہو‘ جو دوسروں کی مدد کرنے کی بجائے ان کی بے عزتی کرتا تھا۔ دوست نے کہا کہ ایسا نہ کہو‘ ان کے پیسے میرے پاس پڑے ہوئے تھے۔ میرے اور ان کے درمیان یہ بات طے تھی کہ جب کوئی سائل ان کے دروازے سے مایوس آئے گا تو میں اس سے الفاظ پوچھوں گا جس طرح میں نے تم سے پوچھے تھے۔ یہ الفاظ ہمارے درمیان کوڈ تھا کہ اس انسان کو میں پیسے دے دوں‘ اگر یہ لوٹا سکیں تو ٹھیک ورنہ ان کو قرضہ معاف کردو۔ وہ یہ سب اس لیے کرتے تھے کہ تاکہ اگر قرضہ لینے والا انسان ان کو سر راہ ٹکرا جائے تو وہ ان کے سامنے شرمندہ نہ ہوں کہ میں نے ان کی مدد کی ہے۔‘‘ جب انسان یہ دل سے مان لیتا ہے کہ سب میرے رب کی عطا ہے تو اس کی زندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ فقیر کے نزدیک سخی وہ ہے جو تھوڑی چیز لے تو اس کو زیادہ سمجھے اور جب زیادہ چیز دے تو اس کو کم لگے۔