مکرمی! اسلامی تاریخ میں، مسجد و مدرسہ اور کتاب وقلم ،کااس طرح تذکرہ ملتاہے کہ وہ لازم و ملزوم ہیں چنانچہ سرکاری مسلمانوں نے نجی طور پر ایسے رفاہی ادارے قائم کئے گئے جن کاکام درس گاہیں اور کتب خانے قائم کرنا تھا ،دولت مند مسلمان اور علماء علم وکتاب کے عام کرنے کے لئے خطیررقمیں اور اپنی جدو جہدصرف کرتے تھے ۔عربی کے عظیم وعبقری ادیب ابوعثمان جاحظ کاقول ہے جو ضرب المثل بن گیا،کتاب بہترین ہم نشین ہے،کتاب سے والہانہ شغف اور شیفتگی کااظہار کرتے ہوئے احمد بن اسماعیل لکھتے ہیں،کتاب ایسی دوست ہے کہ تمھیں نہ تنگ کرتی ہے نہ تمہارے طرب ونشاط میں حارج ہوتی ہے اور نہ کسی تنگی ومشقت میں ڈالتی ہے۔نہ تو انکی صحبت خراب کرتی ہے اور نہ بدکلامی نہ لڑائی جھگڑے کاسبب بنتی ہے اگرمیں کہوں کہ دانشور علماء مردہ ہیں تومجھ پرجھوٹ کاالزام عائد نہ ہوگا اوراگران کے زندہ ہونے کاثبوت پیش کروں تواس کی نہ کوئی تردید کر سکتاہے اور نہ جھٹلاسکتاہے ۔معروف ادیب و شاعر اور نامور وزیر صاحب بن عباد نے امیر نوح بن منصور سامانی کی جانب سے ایک بڑے عہدہ کی پیشکش کو اس لئے مستردکردیاکہ اپنا کتب خانہ بیحد عزیزتھاوہ اسے چھوڑ کرجانہیں سکتا تھااوراتنے بڑے کتب خانہ کو منتقل نہیں کر سکتا تھااس لئے بڑے جاہ ومنصب اور اعزاز پر کتب خانہ اور کتب کو ترجیح دی۔ ( سلیم ساقی)