ہم سارا سال ہی کوئی نہ کوئی عالمی دن مناتے رہتے ہیں کبھی کبھی تو ایک دن میں دو دو دن منانے پڑتے ہیں۔ عالمی دنوں کا ایک جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ نو اگست بروز جمعرات ہی دو عالمی دن منائے گئے۔ ایک تھا کتاب سے محبت کا عالمی دن اور دوسرا موضوع تھا قدیم باشندوں کا عالمی دن۔ دونوں موضوع دلچسپ تھے ذرا سا غور کیا تو لگا یہ دو موضوع نہیں بلکہ شاید ایک ہی موضوع ہے۔ یعنی کتاب اور قدیم باشندے سمارٹ فون ‘ ڈیجیٹل دور اور سوشل میڈیائی مصروفیات میں سے آج کے جدید انسان کو کتاب پڑھنے کا کم ہی وقت ملتا ہے۔ میں اپنے اردگرد کی کی اپنے سماج کی بات کر رہی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ کتاب پڑھنے والے کوئی قدیم دور کے انسان تھے۔ آپ شاید میری رائے سے اختلاف کریں کہ کتاب تو اس ڈیجیٹل دور میں بھی ہر جگہ نظر آتی ہے ایسا ہرگز نہیں کہ کتاب کوئی نایاب شے ہو۔ جی بالکل آپ کا اختلاف بجا ہے لیکن پہلے میرا نقطہ نظر سن لیں۔ میرا کہنا یہ ہے کتاب چھپ بھی رہی ہے۔ خریدی بھی جا رہی ہے لیکن اس محبت‘ شدت ‘ توجہ اور خلوص کے ساتھ پڑھی نہیں جا رہی جیسے کبھی قدیم زمانے کا انسان اپنے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر کتاب کی رفاقت سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اب کتاب کو توجہ کا تسلسل میسر نہیں ادھر کتاب اٹھائی ادھر فون کی گھنٹی بج اٹھے گی۔ فون کو خاموشی پر لگا دیں گے تو بھی ذہن سوشل میڈیا کے چوراہوں پر بھٹکتا رہے گا۔ نوٹی فیکیشن چیک کرنے کے لیے بار بار فون اٹھانا‘ اپنی پوسٹوں پر لائکس اور کمنٹ چیک کرنا اب ایک سینڈروم کی صورت اختیار کر چکا ہے آج کے انسان کی توجہ سوشل میڈیا کی ہزار داستان سناتی دنیا نے اپنی جانب کھینچ لی ہے۔ نت نئی پوسٹیں‘ رنگا رنگ ویڈیو کلپس‘ اسلامی ‘ سیاسی‘ سماجی ‘ازدواجی غرض ہر قسم کی معلومات‘طنزو مزاح لطیفے قصے کہانیاں دوستوں سے چھیڑ چھاڑ‘ مذہبی بحثوں کے انبار اپنے سیاسی نقطہ نظر کو حق اور دوسرے کو باطل ثابت کرنے کی لایعنی بحثیں۔ فیشن کے انداز کھانے پکانے کے نت نئے اطوار اور ضرورت کی ہر شے ڈیجیٹل بازار میں بکتی ہوئی آن لائن بکنے کو تیار۔ سوشل میڈیا کی اس جادو نگری میں بلا کی کشش ہے اور اس کشش نے انسان کو کتاب کا نہیں چھوڑا۔ اس لیے کہ کتاب پڑھنا عبادت کی طرح کا خضوع خشوع مانگتا ہے۔ جب آپ پڑھنے کے لیے کتاب اٹھاتے ہیں تو آپ کو دھیان کا دروازہ کھولنا پڑتا ہے توجہ کے خیمے سے ادھر اُدھر کی گرد جھاڑ کر اسے شوق کی زمین پر گاڑنا پڑتا ہے اور پھر توجہ کے اس خیمے میں بیٹھ کر کتاب کے لفظ لفظ کو اپنے اندر اتارنا ہوتا ہے۔ خالص دھیان اور مسلسل توجہ کی یہ دولت اب میسر کہاں! ایسا نہیں ہے کہ آج کے جدید انسان کے پاس کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں فراغت اور فرصت بہت ہے لیکن یہ دولت ہم سوشل میڈیا کے چوراہے پر جا کر ایک جواری کی طرح روز ہار دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک پوسٹ‘ویڈیو کلپس‘ معلومات کا سیلاب سکرین پر انگلی حرکت کرتی رہتی ہے اور نظر کے سامنے سے پوری دنیا گزر جاتی ہے لیکن ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا کہنے کو معلومات کے خزانے نظر سے گزر جاتے ہیں لیکن کوئی نقش ٹھہرتا نہیں۔ کوئی بات فوڈ فار تھاٹ نہیں بنتی۔ کتاب کا معاملہ تو بالکل الگ ہے ایک اچھی کتاب اگر توجہ سے پڑھی جائے تو وہ ایک خوشبو کی طرح کئی روز تک آپ کے ساتھ ساتھ رہتی ہے کسی نے بہترین کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قاری کے ذہن و دل پر اثر کرنے والی نثر اور اظہار بیان وہ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر قاری بھی اسی انداز اور اسی زاویے سے زندگی کو دیکھنے لگے۔ جس انداز سے لکھاری نے زندگی کو دیکھا ہے قاری بھی اس تجربے میں شریک ہو جائے! میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ اچھی کتاب پڑھ کر یا آپ کتاب میں رہنے لگتے ہیں یا کتاب آپ میں بسنے لگتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھے آج کے جدید انسان کو یہ خوبصورت تجربہ تبھی حاصل ہو گا جب وہ ارتکاز کو منتشر کرنے والے تمام راستوں کو بند کر کے صرف اور صرف کتاب کا ہو کے رہے! پھر وہی بات کہ سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھا غلام انسان اس ریاضت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کتاب کیا ایک اچھی تحریر۔ ایک اچھا کالم پڑھنے کو بھی ارتکاز درکار ہے مرشد ہارون الرشید کی ایک بات یاد آئی ہے کہتے ہیں ایک میڈیا گروپ میں جانے کی بات چل رہی تھی میڈیا مالک نے کہا ہارون صاحب میں آپ کے کالم شوق سے پڑھتا ہوں کہنے لگے میں نے جھٹ سے کہا’’شکیل صاحب آپ میرے کالم نہیں پڑھتے کیونکہ آپ کو وہ وقت اور ارتکاز ہی میسر نہیں جو میرے کالم کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے درکار ہے‘‘ بات تو سچ ہے مختصر سے اقوال زریں کو پڑھنے کے لیے بھی توجہ درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر روز بیسیوں اقوال زریں اخلاقی پوسٹیں زندگی سدھارنے کی سنہری باتیں نظر سے گزارتے جاتے ہیں اور ہمارا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ کتاب پڑھنا مجھے کوئی قدیم زمانے کی مصروفیت لگتی ہے۔ اور قدیم زمانہ بھی کوئی صدی پیشتر کا نہیں بس ہی کوئی بیس پچیس برس ادھر کی بات ہے کہ گھروں میں فارغ وقت میں کتاب پڑھنے کا رجحان تھا بچوں کے لیے ان کی دلچسپی کے رسائل ماہانہ لگوائے جاتے۔ سکول کا وہ سنہری دور مجھے آج بھی یادہے۔ تعلیم و تربیت پھول‘ آنکھ مچولی‘ ذہانت بچوں کا باغ‘ہمارے گھر بچوں کے کئی رسائل آتے۔ پورا مہینہ ہم بہن بھائی ان رسالوں کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ رسالوں کے علاوہ ٹارزن عمروعیار کی کہانیاں آئے دن پاکٹ منی سے خریدتے۔ حرف اور لفظ سے وابستگی کا یہی شوق کتب بینی کی طرف لے آیا۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں فیض احمد فیض‘ حبیب جالب‘ قدرت اللہ شہاب ‘ منٹو‘ بانو قدسیہ‘ رحیم گل ‘ مستنصرحسین تارڑ کو پڑھنا شروع کیا۔ آج کے نوجوان کو دیکھیں کتاب اس کی زندگی سے نکل چکی ہے ڈیجیٹل کتاب کی سہولتیں ضرور میسر ہیں لیکن سچی بات ہے مجھ جیسی قدیم روح کو جو لطف کتاب کو بستر پر نیم دراز پڑھنے میں آتا ہے وہ لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں گاڑ کر پڑھنے میں ہرگز نہیں آتا۔ مجبوری میں مگر بہت کچھ سکرین سے پڑھنا پڑتا ہے۔ آج کا یہ کالم ان تمام قدیم انسانوں کے نام ہے جو آج بھی کتاب سے محبت کرتے ہیں جو صرف کتاب خرید کر بک شیلف میں سجاتے نہیں بلکہ کتاب پڑھنے کی ریاضت کرتے ہیں۔ کتاب کے پھڑپھڑاتے ہوئے اوراق۔ ان پر لکھے سیاہ حروف جنہیں توجہ کا تسلسل اور ارتکاز میسر آئے تو یہ قاری کے سامنے تصور کی نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھے انسان کو یہ توجہ اور ارتکاز میسر آئے تب نا۔!