خون جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے یہ بات کسی کو سمجھائی نہیں جا سکتی کہ کتاب کے ساتھ رتجگے کیسے کاٹے جا سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کتابوں کی دنیا آباد تھی۔ کتاب چھپتی تھی۔ پڑھی جاتی تھی اور ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں‘ میرا نیا شعری مجموعہ آتا تو خطوط بھی آتے۔ میں کوئی غالب کے زمانے کی بات نہیں کر رہا۔ یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے کسی کا خط آتا کہ آپ بجٹ ڈسٹربنگ پوئٹ ہیں آپ کی کتاب خریدنا پڑ جاتی ہے۔ آج کتاب پر لکھنے کی وجہ یہ بنی کہ کل پاکستان ٹیلی ویژن سے اسد عظیم شاہ اور نسرین بٹ ایک ڈاکومنٹری کے سلسلہ میں آئے کہ مجھ سے کتاب پر میری رائے جانیں کہ میرا شمار بھی ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنہیں باقاعدہ رائلٹی ملتی تھی۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارا دور بہت اچھا تھا لوگ شاعری خریدتے تھے۔ جہاں منیر نیازی ‘ احمد فراز ‘ امجد اسلام امجد اور پروین شاکر کو 15 فیصد رائلٹی ملتی تھی تو میں بھی اتنی ہی رائلٹی لیتا تھا اور بلا مبالغہ میری رائلٹی میری تنخواہ سے زیادہ تھی تب میں انگریزی کا لیکچرار تھا۔ صرف کتاب ہی نہیں بکتی تھی تب مشاعرے اور کتب کی نمائش بھی ہوا کرتی تھی۔سب سے بڑی نمائش پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت کرواتی۔ وہاں لاکھوں لوگ وزٹ کرتے طلبا اور طالبات اپنے پسندیدہ ادیبوں اور شاعروں سے آٹو گراف لیتے ‘ مکالمہ کرتے اور بعض دفعہ چائے بھی پیتے۔ اب تو کتاب فیشن بن گئی ہے کہ تعارف کا ایک چور دروازہ ہے۔ سوشل میڈیا نے سب کو شاعر بنا دیا ہے۔ الٹے سیدھے شعروں پر کومنٹس اور لائکس ۔ نہ کوئی کسی سے سیکھنا چاہتا ہے اور نہ کسی کے پاس سکھانے کا وقت ہے۔ کتاب کی اہمیت کم ہو گئی ہے کہ پڑھنے والے دوسری مصروفیات کی جانب راغب ہو گئے ہیں جب کتاب خریدی نہیں جائے گی تو وہ کیوں چھپے گی! ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کاغذ بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ جب کاغذ مہنگا ہوا تو کتاب کے ساتھ وابستہ لوازمات کیوں مہنگے نہ ہونگے۔ حکومت کی توجہ کبھی کتاب کی طرف نہیں رہی۔ لوگ جتنے ان پڑھ اور جاہل ہونگے ان پر حکومت کرنا اتنا ہی آسان ہو گا۔ دوسرے اداروں میں بھی تنزلی آتی ہے اور کتاب زیادہ زیر عتاب آتی ہے۔ ایک اور بات تکلیف دہ یہ بات ہوئی کہ اب کتاب وہ چھپوا سکتا ہے جو صاحب حیثیت ہوتا ہے۔ اچھے شاعر اور تخلیق کار بے چارے اس کی بساط ہی نہیں رکھتے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ لوگ کتب کمپیوٹر پر پڑھ لیتے ہیں ماننے والی بات نہیں۔ چلیے اگر ایسا ہے بھی تو یہ کتاب کا بدل نہیں رکھتا ۔ کتاب کا لمس ہی اور چیز ہے پھر یہ کہ کتاب آپ کسی بھی حالت میں بیٹھے یا لیٹے پڑھ سکتے ہیں بلکہ چلتے پھرتے بھی۔ کتاب آپ کی دوست ہے باہر آپ دیکھیں کہ مغرب کے لوگ جہاں بھی ذرا فرصت پاتے ہیں اپنے بیگ سے کتاب نکالتے ہیں اور مطالعہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کتاب بینی ایک مزاج اور عادت ہے اور یہ وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں خواندگی ہو اور ایک تہذیب ہو۔ اچھی کتاب انسان کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ آپ ذرا اپنے سیاستدانوں ہی کو دیکھ لیں کہ وہ کتاب کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ بھٹو اور رامے جیسے لوگ تو اسستثنا میں آتے ہیں۔ بہرحال کتاب کو رواج دینا چاہیے اور اگر حکومت یہ کرے کہ وہ اپنی نئی جنریشن کو دنیا کی ترقی اور شعور سے ہم آہنگ کر سکتی رہے: کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کہ وہ پہلا مکالمہ تھا مرا زندگی کے ساتھ پطرس بخاری نے انتساب میں لکھا تھا کہ اگر ان کی کتاب کسی نے خریدی ہے وہ اس کے ذوق کی داد دیتے ہیں اگر کسی نے انہیں تحفہ بھیجی ہے تو پطرس پر احسان کیا ہے اور اگر آپ نے چرائی ہے تو آپ کے ذوق کو داد دینی چاہیے۔ کتاب سے محبت کرنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو کتاب دی تو حماقت کی اور اگر کسی نے لے کر واپس کی تو اس سے بھی بڑی حماقت کی۔ پڑھنے والے لائبریری اور کتاب کی دکان کھڑے ہو کر بھی مطالعہ کر لیتے ہیں۔ کتاب کا نشہ بھی بڑا ظالم ہے۔ بنیادی طور پر کتاب کو علم و آگہی کا استعارا ہے۔ ہمیں بھی کتاب خریدنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جا کر کتب کی جانب راغب کرنا چاہیے۔ خواہ وہ کتابیں پریوں اور جنوں کی ہوں یا کارٹونوں کی۔ پڑھائی ضروری ہے۔ تقابل رسائی دنیا کو پڑھ کر بھی جوہر کھلتے ہیں۔ مجھے تو ان لوگوں سے بھی پیار ہے جنہوں نے کتابیں اپنے گھر کے پردوں سے یا پھر الماری کے رنگ سے میچ کر کے رکھی ہوتی ہیں۔ ایک خاتون اردو بازار سے ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کی کتاب مانگ رہی تھی۔ پتہ چلا کہ اس کے گھر کے بک ریک غلطی سے بڑے بن گئے ہیں کتاب سے محبت کرنے والوں کو تو چہرے بھی کتابی اچھے لگتے ہیں۔ تبھی تو اقبال ساجد نے کہا تھا کہ ’’مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو۔‘‘ ایک مصرع اور ذہن میں تیر رہا ہے’’میں نے اس کو چھپ کر دیکھا پڑھتے اپنی کتاب‘‘ کتاب کو تو قافیہ ہی گلاب اچھا لگتا ہے۔ حکیم اصغر صاحب نے تو پنجابی انتخاب کر کے کتاب کا نام رکھا ہے’’سارے رنگ گلاباں دے‘‘ کتاب کی فروغ و ترقی کے حوالے سے سب سے زیادہ حصہ یقینا نیشنل بک فائونڈیشن کا ہے جس کے روح و رواں ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں۔ وہ ہر سال کتاب میلہ بھی کرواتے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ادیبوں اور شاعروں کے پورٹریٹ آپ کو سڑکوں کے کناروں پر آویزاں نظر آتے ہیں انہوں نے ملک بھر میں اپنے کتابی سفیربھی بنا رکھے ہیں اور یہ اعزاز میرے پاس بھی ہے۔ اسلام آباد کے اس کتاب میلے میں بے شمار پبلشر بھی سٹالز لگاتے ہیں بے شمار پروگرامزہیں۔ اس پر پہلے بھی کالم لکھ چکا ہوں۔ یہ اتفاق ہے کہ میں کتاب پر کالم لکھ رہا تھا کہ عین اس وقت باہر سے قاصد نے دستک دی اور ’’ماہنامہ کتاب‘‘ مجھے تھما دیا۔ اس پر لکھا ہے’’امن انقلاب بذریعہ کتاب‘‘ اور نیشنل بک فائونڈیشن کا موٹو ہے’’ہمارا خواب ہر ہاتھ میں کتاب‘‘ یہ میگزین ورثہ قومی و تاریخی ورثہ ڈویژن حکومت پاکستان کے زیر سایہ نیشنل بک فائونڈیشن والے شائع کرتے ہیں۔ اب حکمران بدل گئے ہیں تو تصویروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شفقت محمود صاحب نظر آ رہے ہیں اور صدر عارف علوی صاحب جو کراچی والوں کو خوش کرنے کے لئے ایوان صدر میں مشاعرہ بھی کروا چکے ہیں۔ خیر ہم خوش ہیں کہ یہ سرگرمیاں ضروری ہیں ۔ صدر صاحب نے کہا ہے کہ کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لئے تمام طبقات اپنا کردار ادا کریں۔ میں نے تو عمران خان سے بھی کہا تھا کہ وہ روزانہ ایکسر سائز توکرتے ہیں رات گئے کتاب بھی پڑھا کریں۔ ماہنامہ کتاب میں بے شمار چیزیں ہیں مگر کالم میں تو اب گنجائش نہیں تاہم این بی ایف کے نیشنل بک میوزیم میں وفاقی وزیر شفقت محمود اور فیڈرل سیکرٹری انجینئر عمر حسن نے قرآن گیلری میں رکھے قرآن مجید کے صدیوں پرانے تعلیمی نسخے دیکھے۔ دوسری خبر یہ کہ احمد فراز کی یاد میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں فتح محمد ملک‘ افتخار عارف‘ شبلی فراز اور سید جنید اخلاق نے بھی شرکت کی۔