ہفتے کی سہ پہر کتابوں کی نمائش میں پہنچے تو پارکنگ میں گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا کہ کتاب سے محبت کرنے والے جوق در جوق نمائش میں آ رہے ہیں۔ ایکسپو سنٹر کی پرشکوہ تکونی عمارت کے آس پاس کی بیرونی دیوار پبلشرز اور کتابوں کے رنگین بینروں سے سجی ہوئی تھی۔ اندر پہنچے تو ایک میلے کا سماں تھا۔ واقعتاً بہت رش تھا، لوگ اپنے خاندانوں کو لے کر کتابوں کی نمائش میں پہنچے ہوئے تھے۔ اس سے یقینا ایک خوشگوار تاثر بھرا کہ ہم ہر وقت کتاب نہ پڑھنے کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن یہاں آ کر تو لگتا ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں کے مصداق ابھی کچھ لوگ کتاب سے محبت کرنے والے اور کتاب پڑھنے والے موجود ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ہجوم میں اضافہ ہورہا تھا اور یہاں تک رش بڑھ گیا، نمائش گاہ میں آسودگی سے چلنا پھرنا مشکل ہوگیا۔ اسے دیکھ کر ایک بات جو ذہن میں آتی تھی وہ یہ کہ ہمارے لوگ تفریح کے ترسے ہوئے ہیں۔ ایسی پرامن جگہیں جہاں وہ اپنے بزرگوں اور بچوں کے ساتھ جا کر خوشگوار وقت گزار سکیں۔ کتابوں کی نمائش بھی اب ایک ایسے ہی میلے کا روپ دھار چکی ہے جس کا لوگ ہر سال انتظار کرتے ہیں۔ ہر سال یہ ایک ہی طرز پر منعقد ہوتا ہے اس میں بہتری اور تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے۔ ایک تو جگہ کچھ کشادہ رکھنی چاہیے کیونکہ جب لوگوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے تو پھر چلنے پھرنے والوں کو قدرے مشکل پیش آتی ہے۔ یوں بھی کتابوں کی خریداری اور کسی عام چیز کی خریداری میں فرق ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کتابوں کے سٹالز پر گھنٹوں کھڑے کتابوں کی ورق گردانی کرتے رہتے ہیں۔ پھر جو کتاب دامن پکڑ لے اسے ہی خریدتے ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی ٹائٹل دیکھ کر کتاب خریدے۔ یا پھر کسی کے ذہن کوئی کتاب ہے تو اپنی مطلوبہ کتاب خریدے اور آ جائے۔ ایسا شاید کوئی بدذوق ہی کرے گا۔ کتاب کی محبت میں مبتلا لوگ زیادہ سے زیادہ کتابوں کو چھونا، کھولنا، دیکھنا اور ورق گردانی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کا نشہ ہے۔ اس میں بھی بہت لطف ہے کہ آس پاس ڈھیر ساری کتابیں پڑی ہوں اور آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ہوں۔ آپ ایک کتاب اٹھائیں، اس کے ورق گردانی کریں۔ اس میں اٹھتی مہک کو اپنے اندر اتاریں اور پھر کسی دوسری کتاب پر آپ کی نظر پڑے تو والہانہ اس کی طرف لپکیں۔ یوں کئی کتابوں سے مختصر سی یہ شناسائی بھی کتاب سے محبت کرنے والوں کو بہت خوشی دیتی ہے۔ نمائش گاہ سے باہر نکلے تو ایک چیز میں نے نوٹ کی کہ اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ آتے ہوئے بچوں نے کتابوں کے لفافے اٹھا رکھے تھے۔ کتاب کا شوق ہو تو والدین بخوشی بچوں کوکتابیں لے کر دیتے ہیں۔ خود میرا بیٹا جس ذوق و شوق سے کتابوں کی نمائش گاہ پر گیا، اپنی پسند کی ڈھیروں کتابیں خریدیں، اس سے بہت خوشی ہوئی اور دعا بھی دل سے نکلی کہ کاش اس کا یہ شوق سلامت رہے۔ اسی طرح جب میں نے اپنی تیرہ چودہ سال کی بھتیجی منال زہرہ کو اردو اور انگلش کے ضخیم ناول خریدے ہوئے دیکھا تو حیرت ہوئی اور میں نے پوچھا کہ یہ کون پڑھے گا تو بولی پھوپھو میں پڑھتی ہوں۔ ہزار ہزار صفحوں کے ناول پڑھ لیتی ہو۔ حیرت کا ایک جھٹکا لگا مجھے اور دلی خوشی ہوئی کہ چلو اس دور کے بچے اگر کتاب سے جڑ جائیں تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ ایک فرانسیسی کہاوت یاد آئی کہ کتابی کیڑوں کے بچے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ انہیں وراثت میں کتابیں اور کتب بینی کا شوق ملتا ہے۔ کچھ کتابیں مجھے واقعی مہنگی لگیں۔ مثلاً ریڈنگز کے سٹال پر بچوں کی کارٹون سٹوریز جو دانیال نے خریدیں، ان کی قیمتیں پانچ سو سے دو ہزار تک تھیں لیکن ایک بات تو ہے کہ کتابوں کا معیار بہت عمدہ تھا کہ دیکھتے ہی جی خوش ہو جائے۔ کتابیں خریدنے کے بعد اگلا مرحلہ انہیں توجہ اور ارتکاز سے پڑھنے کا ہے۔ میرے مشاہدے میں تو بیشتر لوگ ایسے ہیں جو کتابیں ذوق و شوق سے خرید بھی لیتے ہیں لیکن پھر ستم ہائے روزگار اور کاروبار حیات میں ایسے الجھتے ہیں کہ کتابیں کارنس پر یا پھر الماری کے شیلفوں پر پڑی تکتی رہتی ہیں کہ کوئی ہے جو ان پر پڑی بے توجہی کی گرد جھاڑے اور ان کے صفحات میں آباد جہان کی سیر کو جائے۔ گلزار کی ایک نظم کے مصرعے یاد آئے ہیں: کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے بڑی حسرت سے تکتی ہیں جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر اور اب یہی ہورہا ہے کہ وقت کاانمول خزانہ فیس بک، وٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دوسرے چینلز کی نذر ہورہا ہے۔ کتاب ارتکاز اور توجہ مانگتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے سمارٹ فون کو آن کیے اس کی سکرین پر چمکنے والے ہر نوٹیفکیشن کو کلک کرکے دیکھیں اس کا جواب دیں اور بیچ بیچ کے وقفوں میں کتاب بھی پڑھتے رہیں۔ کتاب پڑھنی ہے تو خود پر کچھ پابندی لگانا پڑے گی۔ کچھ اصول طے کرنا ہوں گے۔ ہفتے میں ایک دو دن فیس بکس سے مکمل پرہیز کریں۔ وٹس ایپ کے نوٹیفکیشن بھی خاموشی کے موڈ پر لگادیں۔ فون کے ڈاکخانے میں آنے والی ہر ویڈیو کو دیکھ کر اپنا وقت برباد نہ کریں۔ پھر اس خاموش اور سکون بھرے دن میں کوئی اچھی سی کتاب اٹھا کر پڑھیں۔ میں ایک ساتھ کئی کتابیں شروع کرلیتی ہوں لیکن جس بھی کتاب کو پڑھوں پورے ارتکاز کے ساتھ پڑھتی ہوں۔ فیس بک کو استعمال نہ کرنے کی پابندی خود پر لگاتی ہوں۔ اسی طرح وٹس ایپ کے نوٹیفکیشن بھی خاموش کردیتی ہوں۔ فیس بک تو کئی روز بھی نہ دیکھوں تو فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں بنیادی طور پر فیس بک پرسن نہیں ہوں۔ ہاں انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس سے پسند کا مواد پڑھنے میں وقت ضرور لگاتی ہوں لیکن ایک بات تو سچ ہے کہ جو مزا کتاب کو توجہ اور ارتکاز کے ساتھ پڑھنے میں آتا ہے وہ سکرین سے پڑھنے میں نہیں آتا۔ کتابوں کی نمائش سے میں نے خورشید رضوی کی خاکوں پر مبنی کتاب باز دید بھی خریدی۔ کل جب میں باز دید کو پڑھنے کے لیے اٹھایا تو لگا جیسے خورشید رضوی کے قلم کا جادو باز دید کے صفحات سے نکل کر فروری کی سنہری دھوپ میں پھیل رہا ہے اور میرے فیس بک زدہ بکھرے ذہن کے لیے یہ لمحات کسی تھراپی سے کم نہیں تھے۔