لوگ تو کہتے ہیں کہ دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے اور یہ کہ ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے کتابوں کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے اور میں پاگل ہو جائوں گا نہیں بلکہ ہو چکا ہوں ایسا لگتا ہے… میں جانتا ہوں کہ کتابوں سے دلچسپی رکھنے والے لوگ کم کم ہیں۔ اقلیت میں ہیں لیکن اقلیتوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں تو کتابوں کے کالم اس اقلیت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے جو کتابوں سے اُلفت کے رشتے استوار کیے ہوئے ہے۔ کتابوں سے الفت کی ایک درخشاں مثال زمرد ملک تھا۔ نہایت نفیس انسان، کچھ زیادہ ہی پڑھا لکھا،ایک مقامی کالج میں انگریزی کا پروفیسر تھا اور شاعری بھی انگریزی میں ہی کرتا تھا۔ پھر یکدم انگریزی سے منہ موڑ کر پنجابی میں شاعری کرنے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ مال روڈ پر ریگل کے بس سٹینڈ پر ہم یونہی لاہور کی شام کو اپنے اندر اترتا محسوس کر رہے تھے جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ زمرد تم یکدم پنجابی کی جانب کیسے آ گئے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ایک صبح جب میں بیدار ہوا تو پچھلی شب جو خواب دیکھا تھا اس کے بارے میں سوچا تو معاًمجھے خیال آیا کہ خواب تو میں پنجابی میں دیکھتا ہوں اور شاعری انگریزی میں کرتا ہوں۔ شاعری اس زبان میں کرنی چاہئے جس میں آپ خواب دیکھتے ہیں۔زمرد ملک جیسا کہ میں نے عرض کیا کتابوں کا ایک کیڑا تھا بلکہ دھک مکوڑا تھا۔ جب دیکھا اسے کتاب کے ساتھ دیکھا۔ مال روڈ پر انٹرنیشنل بک ڈپو جو لارڈز ہوٹل کے پہلو میں تھا اس کی شکار گاہ تھی جہاں وہ کتابیں شکار کرتا تھا۔ قدم قدم پہ جنوں اختیار کرتے تھے۔ شباب تھا تو ستارے شکار کرتے تھے۔ ظہیر کاشمیری نے کہا تھا۔ تو ایک روز زمرد ملک کتابوں کی اس دکان میں بیٹھا حسب معمول کتاب کے اوراق میں غرق تھا جب اس پر شدید ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فرش پر گر گیا۔ جب اسے ایمبولینس میں ڈال رہے تھے تو اسے ہوش آ گیا اور کہنے لگا ’’وہ میری کتاب کہاں ہے‘‘ وہ کتاب اٹھا کر لائی گئی اور زمرد ملک اسے سینے پر رکھ کر ایسا شانت ہوا کہ مر گیا۔ اب زمرد ملک کا تذکرہ کیا ہے تو کتابوں سے محبت رکھنے والے اور لوگ بھی یاد آتے چلے جاتے ہیں۔ ان کتاب دیوانوں میں سے ایک صلاح الدین محمود تھے۔ نہایت نستعلیق اور نفیس شخص، علی گڑھ کی ثقافت کی تصویر، ذرا اکڑ کر اور کھڑے پاجامے میں ذرا ٹانگیں چوڑی کر کے کھانستے ہوئے یعنی اپنی آمدکی خبر کرنے کے لیے مؤدب ہو کر کھانستے ہوئے محفل میں داخل ہوتے۔ صلاح الدین محمود میرے بہت عزیز دوستوں میں سے تھے اور ہم دونوں میں کتابوں اور آرٹ فلموں کا عارضہ مشترک تھا۔ سمن آباد میں ان کا گھر نہ تھا ایک کتاب کائنات تھی۔ کسی بک شاپ میں داخل ہوتے تو جیب خالی کر کے نکلتے بلکہ اکثر کتابیں اتنی خرید لیتے کہ پیسے کم پڑ جاتے اور یا تو دکاندار سے ادھار کر لیتے اور یا پھر کسی دوست کو فون کر کے کہتے ’’فلاں بک سٹور میں ہوں…کتابیں بندھوا چکا ہوں، کوئی بھی کتاب چھوڑ جانے کو جی نہیں چاہتا… ذرا مدد کے لیے آ جائیں‘‘۔ وہ شفیق الرحمن کی مانند اپنے تمام دوستوں کی ادبی پسند سے آگاہ تھے اور صرف اپنے لئے نہیں ان کے لیے بھی کتابیں خرید کر انہیں نہایت عمدگی سے پیک کر کے ان کے گھر جا کر پیش کرتے۔ وہ ایک عرصہ ’’سویرا‘‘ جیسے مؤقر ادبی مجلے کے ایڈیٹر رہے۔ کاملیت پسند اتنے تھے کہ الجھن ہونے لگتی تھی۔ اندرون شہر جو تین چار پرانے جلد ساز ابھی تک اپنی نیم اندھیاری کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر پرانی کتابوں اور مخطوطوںکی جلد سازی کرتے تھے وہ ان کے دوست تھے۔ پہروں ان کے پاس بیٹھے رہتے اور اپنی پسندیدہ کتابوں کی جلدیں از سر نو بنواتے۔ میرے بچوں کو بھی نایاب فیئری ٹیلز تحفے میں دیتے۔ میرے پاس چینی بھکشو فاہیان کا مشہور سفر نامہ اب بھی ان کی یادگار کے طور پر محفوظ ہے جسے انہوں نے جانے کہاں سے تلاش کیا اور دوبارہ جلد بندھوا کر مجھے پیش کر دیا۔ ان کے نایاب کتب خانے کا ان کے بعد کیا حشر ہوا، مجھے کچھ خبر نہیں۔ کراچی کے سحر انصاری کو بھی کتابوں کے مرض لاحق ہے۔ چین کے ادیبوں کے دورے کے دوران وہ بھی میرے ہم سفر تھے۔ دیگر ادیبوں کو شکایت تھی کہ سحر صاحب اپنے خزانے کی پوٹلی کی گرہیں کھولنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ زیادہ دوستوں پر کچھ خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی شاپنگ وغیرہ کرتے ہیں۔ میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگے ’’بھئی ہم تو کتابیں خریدیں گے‘‘ اور واقعی واپسی پر ان کے سوٹ کیس کے بخیے کتابوں کے بوجھ سے اکھڑ رہے تھے۔ اب ذرا مضمحل سے ہو گئے ہیں۔ بینائی میں بھی فرق آنے لگا ہے…کراچی کی ایک ادبی کانفرنس کے دوران انہوں نے کسی کے ہاتھ میں میرا تازہ ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ دیکھا تو کہنے لگے ’’تارڑ صاحب…ہمیں کیوں محروم رکھا ہوا ہے، تو میں نے کہا ’’سحر صاحب آپ سے پڑھا تو جاتا نہیں تو ناول کیا کریں گے‘‘ کہنے لگے ’’دقت سے پڑھ لوں گا، آپ کی سب کتابیں لائبریری میں ہیں، یہ بھی ہونی چاہئے‘‘ اور واقعی اکثر ادبی سیشنوں کے دوران وہ سر جھکائے مکالمے میں مصروف رہتے تھے۔ میرے ایک اور دوست پروفیسر سمیع اللہ قریشی جو مختلف کالجوں کے پرنسپل رہے، کتابوں کے اتنے شیدائی تھے کہ آخری عمر میں صرف ایک آنکھ میں دس فیصد بینائی باقی رہ گئی تو بھی دھوپ میں بیٹھ کر کتاب اس آنکھ سے لگا کر پڑھتے رہتے حالانکہ کسی سہارے کے بغیر چلنا بھی ان کے لیے مشکل ہوا جاتا تھا۔ ابا جی کے ادارے کسان اینڈ کمپنی میں ایک انور صاحب جزو وقتی طور پر غیر ملکی ’’خط و کتابت اور ٹائپنگ‘‘ وغیرہ میں معاونت کرتے تھے۔ سائیکل پر آتے تو بھی ایک ہاتھ میں کتاب پڑھتے رہتے۔ سائیکل کے کیریئر نے کوئی نہ کوئی کتاب دبوچی ہوتی۔ فارغ ہوتے تو ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں کتاب۔ ہمیشہ درویشوں کے مانند صدا دیتے ’’ایک کتاب کا سوال ہے بابا‘‘ میں ہمیشہ ان سے شکایت کرتا کہ انور صاحب آپ کے سائیکل کا کیریئر ایک چوہے دان کی طرح ہے۔ آپ کتاب اس میں پھنسا کر لے جاتے ہیں اور اس ستیا ناس ہو جاتا ہے تو وہ کہتے مستنصر اگر کبھی کوئی کتاب گھر جاتے کیریئر سے گر گئی تو میں صدمے سے مر جائوں گا۔ اس لیے اسے پھنسا کر لے جاتا ہوں۔ ایک روز مکالمے کے لیے کچھ دستیاب نہ ہوا تو مجھ سے ایک غیر ملکی فرم کی پھولوں کے بیجوں کی فہرست لے گئے۔ ساری رات اس کے مطالعے میں مگن رہے۔ انور صاحب کی بیگم بھی ان کی کتب بینی سے سخت بیزار تھیں اور وہ بھی کہا کرتی تھیں ’’کتابیں میری سوکنیں ہیں، اللہ کرے مر جائیں‘‘ ویسے تو ہیں اور بھی کتابوں کے عاشق بہت اچھے لیکن کہتے ہیں کہ زاہد ڈار کا ہے مقام ہی کوئی اور…زاہد ڈار وہ مجنوں ہے جس نے ساری حیات کتاب خوری میں گزار دی۔ ایک زمانے میں پاک ٹی ہائوس کی ایک مخصوص میز اس کا گھونسلا تھی جہاں وہ سارا دن سر جھکائے دنیا جہان کا ادب پڑھتا رہتا۔ شادی بھی اس لیے نہ کی کہ کتاب ہی اس کی منکوحہ ہو گئی تھی۔ وہ کم از کم میرے لیے ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا تھا۔ میں کسی نئے غیر ملکی ادیب کو دریافت کرتا تو وہ مجھے اس کی کل تصانیف سے آگاہ کر دیتا۔ جب بھی ملتا یہی پوچھا ’’ان دنوں کیا لکھ رہے ہو؟‘‘ ایک بار ڈاکٹر انور سجاد سے پوچھا کہ ڈاکٹر کوئی نئی چیز لکھی ہے تو ڈاکٹر نے اپنے موڈ میں آ کر لاپروائی سے کہا…میں…لکھنے پر لعنت بھیجتا ہوں۔ زاہد ڈار نے اپنی چائے کی پیالی اٹھائی اور ساتھ والی میز پر جا بیٹھا۔ ڈاکٹر نے حیران ہو کر سبب پوچھا تو کہنے لگا ’’تمہارے ساتھ دوستی اس لیے ہے کہ تم میرے لیے کتابیں لکھتے ہو۔ اگر تم نے لکھنا چھوڑ دیا ہے تو تم میرے لیے بیکار ہو۔ آئندہ سلام نہ کرنا‘‘ زاہد ڈار ان دنوں بہت ناتواں ہو چکا ہے… چلنے پھرنے سے بھی عاجز ہے…بڑھاپا اسے لاچار کئے دیتا ہے۔ پھر بھی کبھی کبھی گلبرگ مین بلیوارڈ پر ’’ریڈنگز‘‘ میں بیٹھا مل جاتا ہے۔ برے حالوں میں ہے۔ اس کے باوجود گرتا پڑتا کبھی کبھار ماڈل ٹائون پارک مجھے ملنے کے لیے پہنچ جاتا ہے اور ہاتھ میں کتاب۔ زاہد ڈار اول و آخر کتاب…کتاب کا یہ مجذوب، آخری عاشق بھٹکتا پھرتا ہے لیکن کب تک کہ اوّل و آخر فنا۔