اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب میری زندگی کی سب سے بڑی کمزوری اور کتاب ہی میری زندگی کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے۔شعور کے دائرے میں قدم رکھنے کے بعدکم از کم ہزاروں کتابیں نظر سے گزری ہوں گی لیکن ان میں ایسی کتابیں تو شاید انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہیں، جنھوں نے قدموں میں زنجیریں ڈال دی ہوں، قلب و ذہن پہ انمٹ تصویریں نقش کر دی ہوں یا جن کے مطالعے کے بعد ادبی سواد،ازلی ثواب کی کیفیت میں ڈھلتا محسوس ہوا ہو۔ ایسی کتابوں میں ایک نہایت اہم کتاب مولانا محمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ ہے۔ اسے پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر کا جو شعور، شعرا پہ جو نظر، اُردو ادب سے جو لگن، زبان کی نزاکتوں کا جو احساس مولانا آزاد کو ہے، اُردو ادب کی تاریخ میں وہ کم کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ کلاسیکی ادب کی یہ جمالیاتی تاریخ نہایت دل پذیر ہے، رومانی تنقید کا یہ انداز ہر جمال دوست قاری کو بھلا لگتا ہے۔ مجھے ایسے کِرم کشید ناقدین پہ ہنسی آتی ہے جو اس کے شگفتہ اسلوب سے مزہ لینے، اس کے نثری حسن سے حظ اٹھانے، خیال کو تصویر کرنے، کیفیت کو تحریر کرنے اور اس باکمال ادیب کی لسانی موشگافیوں کے صدقے واری جانے کی بجائے اس کے تاریخی استناد پہ انگلیاں اٹھا کے شاد ہوتے ہیں۔ کوئی اُن کو کیسے بتائے کہ یہ کتاب سن و سال کی جوئیں نکالنے کے لیے لکھی ہی نہیں گئی۔ اُردو نثر پہ نئی نئی جوانی آئی تھی، یہ اسی کے جوبن کی چھب دکھانے کا موقع تھا۔ بے وقعت ادبی تذکرے، ادبی تاریخ کا رُوپ دھار رہے تھے اور یہ فریضہ مولوی عبدالحق یالبھو رام چھتاری کی بجائے مولانا آزاد کے ہاتھوں ادا ہو رہا تھا، جن کی بابت ناک پہ مکھی نہ بیٹھنے دینے اور حالی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کی ہزار صفحے کی ’’حیاتِ جاوید‘‘ پر ’’مدلّل مدّاحی‘‘ اور ’’کتاب المناقب‘‘ پر من چاہا تبصرہ کر کے شانت ہو جانے والے انھی کے کم عصر (یہ کم عصر ،ہم عصر سے تھوڑا جونئیر ہوتا ہے) شبلی نعمانی کا کہنا تھا: ’’ظالم گپ بھی ہانکتا ہے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ نیز سرسید، حالی، ڈپٹی، شبلی، آزاد کو ’اردو کے ارکانِ خمسہ‘ جیسا سرمدی لقب عطا کرنیوالے رومانوی نقاد مہدی افادی نے ان پانچوں ہستیوں کے تخلیق کردہ ادب کی افادیت کا موازنہ کرتے ہوئے دو ٹوک حکم لگا دیا تھا کہ: ’’سرسید سے معقولات الگ کر لیجیے تو وہ کچھ نہیں رہتے، نذیر احمد مذہب کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے، شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو وہ بھی قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے ، سوانح نگاری کے سہارے ہی چل سکتے ہیں لیکن آقائے اُردو پروفیسر آزاد صرف ایسے انشا پرداز ہیں،جنھیں کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں۔‘‘ اور اس پر آخری حکم ہم لگاتے ہیں کہ آزاد جیسی شعروں میں پلی، ادبی نزاکتوں میں ڈھلی شخصیت کے وسیع ووقیع ہنر کو تولنے کیلئے ہمیں ذاتی مفادات اور جدید فسادات کے حامل تنقیدی ترازو لے کے ادبی گلی کوچوں میں در آنے والے تنگ ظرف ناقدین کی بھی قطعاً ضرورت نہیں، جو صدیوں کی تہذیب حروف کی پلکوں پہ سجا دینے والے فن کاروں کو فیشنی باتوں اور ذاتی باٹوںکی مدد سے بے توقیر کرتے پھریں۔ شجاعت رجوی نے شاید ایسے ہی پارکھوں سے تنگ آ کے کہا تھا: بازار میں ہم اپنا ہنر بیچتے بھی کیا کانٹوں کے آس پاس ہی پھولوں کے بھاؤ تھے مولانا آزاد تو اوزان و اوسان کے وہ پارکھ ہیںجو اپنی اس بے مثل تصنیف میں اُردو ادب سے ہمارے لیے ایسے ایسے جواہر پارے اور خزف ریزے ڈھونڈ کے لاتے ہیں جو ادب کے غیر نصابی قسم کے قارئین کو معلومات اور محظوظات کی نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔امیر خسرو جو تمام عمر لفظوں میں جادو بھرنے کی تجارت کرتے رہے اور جن کی ٹھمریاں اور قوالیاں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ اس کتاب میں خسرو کے کلام سے لی گئی اُردو کی ایک نایاب صنف ’دو سخنے‘ (وہ صنفِ سخن جس کے ایک ہی مصرع میں دو ایسی پہیلیاں بیان ہوتیں،جن کی بجھارت ایک ہوتی ) کی مثالیں دیکھیے: گوشت کیوں نہ کھایا ، ڈوم کیوں نہ گایا…گلا نہ تھا جوتا کیوں نہ پہنا ، سنبوسہ کیوں نہ کھایا…تلا نہ تھا انار کیوں نہ چکھا ، وزیر کیوں نہ رکھا…دانا نہ تھا پھر آزاد کے شعری انتخاب کا حسن بھی ملاحظہ ہو کہ ڈھائی سو سال کے بعد بھی نہ صرف حسبِ حال ہیں بلکہ لطف و انبساط کے اسی مقام پہ ہیں: مجھ سے جو پوچھتے ہو تو ہر حال شُکر ہے یوں بھی گزر گئی، میری ووں بھی گزر گئی (فغاں) سودا نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈنے لڑکے پھریں ہیں پتھروں سے دامن بھرے ہوئے دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے (درد) امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ جرأت کی غزل جس نے سنی ، اس نے کہا واہ! کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ (جرأت) محفل میں تری شمع بنی موم کی مریم پگھلی پڑی ہے اس کی وہ کافور کی گردن (انشا) خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال کہ آگ لینے کو جائیں، پیغمبری مل جائے (ناسخ) ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو کیسے تیر انداز ہو،سیدھا تو کر لو تیر کو (آتش) ایک دو نمونے ان کی نثری محاکات اور لسانی وژن کے بھی دیکھیے: ’’زبانِ اُردو ایک لاوارث بچہ تھا کہ اُردوئے شاہجہانی میں پھرتا ہوا ملا۔کسی کو اس غریب کے حال کی پروا نہ ہوئی۔ اتفاقاً شعرا نے اٹھا لیا اور محبت سے پالنا شرو ع کیا۔ اس نے انھی کے کھانے سے خوراک پائی، انھی کے لباس سے پوشاک پہنی، انھی سے تعلیم کا سرمایہ لیتا رہا، انھی کے قدموں پر چلنا سیکھا۔‘‘’’ہمیں چاہیے کہ انگریزی میں سے نئے پودے لے کر اپنا گلزار سجائیں جیسا کہ ابتدا میں ہمارے اُردو فارسی کے انشا پرداز کر گئے۔ یہ مطلب ان انگریزی دانوں سے پورا ہوگا جو دونوں زبانوں میں پوری مہارت رکھتے ہوں گے، کیونکہ اُن کی دو آنکھیں روشن ہیں۔ اُردو اپنی زبان ہے اور انگریزی کُنجی خدا نے دی۔ چقماق کے دونوں جزوں کو ٹکراؤ کہ آگ نکلے۔‘‘ہم نے 1990میں یوسفی کی ’آبِ گم‘ اور 1994 میں آزاد کی ’آبِ حیات‘ حرف حرف پڑھنے کے بعد ایک رائے قائم کی تھی کہ اگر اُردو میں صدیوں پر محیط کتب کی بابت کوئی رائے قائم کرنے کا رواج ہو جائے تو برملا کہا جا سکتا ہے کہ اُردو نثر میں انیسویں کی کتاب ’آبِ حیات‘ اور بیسویں صدی کی کتاب اس سے سو سال بعد لکھی گئی ’آبِ گم‘ ہے۔ اس کے بعد کے تیس سالوں میں بھی رنگا رنگ نثری کتب سے واسطہ رہا۔ اب تو اوسطاً ایک دو کتابیں مجھ پر ڈاک کے ذریعے روز اُترتیں ہیں لیکن الحمدللہ وہ رائے آج بھی برقرار ہے!!! (دوستو! آج اسی بے پناہ ادیب کا 191 واں جنم دن بھی ہے)