گزشتہ دنوں چیف جسٹس نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو صرف قانون ہی نہیں فلسفہ، تاریخ اور ادب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے لیکن دوستو! ہم سمجھتے ہیں کہ صرف وکلا ہی پہ کیا موقوف، یہاں سیاست دانوں، دکانداروں، تاجروں، آجروں، ججز، بیوروکریٹس، ڈاکٹروں، انجینئروں، پولیس والوں، فوٹو کاپیوں کی مانگ میں سیندور بھرنے والے تدریسی نوٹس سے آنکھ بچا کے اساتذہ کو، سیاست اور حکمرانوں پہ ہمہ وقت نظر رکھنے والے صحافیوں کو، حتیٰ کہ ادیبوں، شاعروں کو بھی اپنے خود ساختہ بُت خانے (حکیم جی کے بقول کُت خانے) سے نکل کے کچھ کام کی کتابیں بھی پڑھ لینی چاہئیں۔ ہمارا تو یہ بھی خیال ہے کہ سرکاری ملازمین کی ترقی کو کسی حد تک اچھی کتب کے مطالعے کے ساتھ مشروط کیا جانا چاہیے۔حکیم جی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جیل میں بند ملزمان اور معطل ملازمین پہ بھی ان کی علمی استطاعت کے مطابق کتب کا مطالعہ فرض قرار دے دینا چاہیے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آپ ایک ملزم کو بیس اچھے اشعار مفہوم کے ساتھ یاد کرا دیں تو اس کا کردار، مزاج اور آیندہ زندگی کا انداز بدل جائے گا۔ ہماری بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ ہم نے جھوٹ موٹ کی سائنس کے آکھے لگ کے اپنے سرمدی علوم کو پسِ پشت ڈال دیا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے غالب، اقبال، یوسفی کے فن کو اُٹھان عطا کرنے والا فلسفہ تعلیمی اداروں سے غائب ہو گیا۔ رفتہ رفتہ عبرت اور عظمت کا درس دینے والی تاریخ بھی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ سیاحت و سیادت کی مہار پکڑنے والا جغرافیہ نہیں رہا۔ پھر یہ اپنا ادب کہ جسے تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے اور اس وقت دنیا بھر کی تمام اہم جامعات ادبیات کے مطالعے اور تخلیقی وژن کے جانچے بغیر طالب علم کو بیچلر کی ڈگری دینے سے انکاری ہیں، ہم نے اس کو بھی بلا سوچے سمجھے ازکارِ رفتہ اشیا کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے۔ سقراط، افلاطون، رومی، سعدی، کلیلہ و دِمنہ، ہندی مائتھالوجی سے لے کے تورات، انجیل کو اٹھا کے دیکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی ساری حکمت قصے کہانیوں کی کوکھ سے پھوٹتی ہے۔ پیسہ تو اس کائنات کا سب سے گھٹیا تعارف ہے، سب سے افضل حوالہ تو لفظ ہے۔ ہمہ وقت جائیدادوں کے پیچھے بھاگنے اور مادیت میں مست رہنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ دنیا کی کتنی بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ لاہور میں ادھار مستعار کر کے دس مرلے کا دو منزلہ گھر خریدا تو بہت سے ہمدرد اعزہ نے مخلصانہ مشورہ دیا کہ ایک پورشن کرائے پہ اٹھا دو، مختصر فیملی کا ایک پورشن میں گزارا ہو جائے گا، ہر ماہ اچھی خاصی آمدن بھی ہو جائے گی۔ بہت سوچ بچار کے بعد کرائے کی بجائے کیے کرائے اور آمدن کی جگہ آمد کو اہم جانا اور یہی فیصلہ ہوا کہ ایک منزل میں میری جسمانی فیملی رہے گی، دوسرے میں روحانی خاندان یعنی کتابیں، کتابیں اور بس کتابیں۔ ہماری اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی کہ کتابیں ہر مہینے بلکہ ہر روز ہم پر رحمتوں کی طرح برستی ہیں۔ صبا اکبر آبادی کا کیسا خوب صورت مصرع ہے : ہم نے لفظوں کے مکانوں میں گزاری زندگی اسی رعایت سے ہم بھی یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں: محبت ، سعادت ، مراتب ، جنابیں کتابیں ، کتابیں ، کتابیں ، کتابیں میر انیس کے دادا، میر حسن نے تو اپنی شہرہ آفاق مثنوی کی ہیروئن کی شان اور سُندرتا بڑھانے کے لیے محض اتنا کہا تھا: سرہانے مجلّد دَھری اک کتاب ظہوری ، نظیری کا کل انتخاب ہمارا مرتبہ اس ہیروئن سے کتنا ارفع ہے کہ ہمارے سرہانے کیا آدھے بیڈ پہ الھڑ کتابیں، بلھڑ رسالے استراحت فرماتے ہیں، گاڑی میں ہمیشہ ہم سفر بنتی ہیں، دفتر اِن کے وجود سے مہکتا ہے، بَیگ میں ہوں تو میرابیگ مرزا فرحت اللہ بیگ بنا پھرتا ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ خلوص کے پروں پہ بیٹھ کے آنے والی ایک اک کتاب، ایک اِک رسالے پر گل افشانیِ الفاظ کا سلسلہ مستقل چلے لیکن اخبار کا مزاج اور ہماری سست روی آڑے آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مطالعہ ہماری عیاشی اور لکھنا بہرطور مشقت ہے۔ پھر بھی جی جان سے من چاہتا ہے کہ احباب کو ان کی محبتوں کی رسید تو دی جائے حالانکہ حکیم جی کا ایک سرمدی فرمان ہے کہ محبتوں کی رسید نہیں ’رشید‘ ہوتی ہے، نوید ہوتی ہے، وعید ہوتی ہے، جو ہر طرح کے دکھاوے سے بعید ہوتی ہے!!! استادِ محترم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جنھوں نے ہمیں باتوں باتوں میں ، ادب کی گھاتوں سے شناسا کر دیا۔ ان کا وجودِ مسعود آج بھی ہمارے الفاظ اور لہجے میں توانائی بن کر دوڑتا ہے۔ ان کے مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، لاہور سے چھپے اور انتہائی سستے داموں دستیاب قلی قطب شاہ سے پروین شاکر تک کے دو سو بیس شعرا کے عرق ریز ’’انتخابِ زریں‘‘ سے متعلق نہایت سہولت سے کہا جا سکتا ہے کہ: کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجا نکال کے میرے پاس ان کی دوسری محبت ڈاکٹر شفیق احمد اور ڈاکٹر سلیم مظہر کے مرتبہ ان کے بیالیس مصاحبوں، اقتباسات اور ڈاکٹر سلیم مظہر کی خواجہ صاحب سے ارادت سے مزین ’’افکار و گفتار‘‘ ہے، جسے پنجاب یونیورسٹی نے شان دار انداز میں شائع کیا ہے۔ تیسرے نمبر پر ان کا شعری مجموعہ ’’اُفتاد‘‘ پڑا ہے، جس میں انھوں نے اکبر الہٰ آبادی کے اندازِ ملیح کے ساتھ ہماری معاشرتی کجیوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے ایک ایک شعر میں ہمارے قومی زوال کے اسباب چھپے ہیں۔ یہ شعر دیکھیے: تنخواہ ہے حلال ، سبھی کا ہے یہ خیال اکثر مگر حرام سمجھتے ہیں کام کو غازی علم الدین، جو بلھے شاہ کے شہر سے سکونت ترک کر کے میاں محمد بخش کے ہمسائے بنے بیٹھے ہیں، اس کی یقینا انکے پاس کوئی معقول وجہ ہوگی، کیونکہ ٹھوس دلیل کے بغیر بات کرنا ان کا وتیرہ ہی نہیں۔ لسانی سیاست کے دور میں انھوں اُردو کے قارئین کو ’’لسانی مطالعے‘‘ کے بعد جو ’’لسانی زاویے‘‘ عطا کیے ہیں، وہ ان کی محنتِ شاقہ اور زبان کے رموز و علائم پہ ان کی گہری نظر کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ کتاب میں شامل ان کے ڈھائی درجن مقالوں نے ہم جیسے کج مج زبانوں، پنبہ دہانوں پر ایسی قیامت ڈھائی ہے کہ ہم انگشت بدنداں ہیں کہ: ایسی چنگاری بھی یا رب! اپنی خاکستر میں ہے! جوں جوں کتاب کا مطالعہ کرتے گئے، زبان و ادب سے چروکنی دعوے داری کا پردہ فاش ہوتا چلا گیا۔ اُردو زبان کی جو جو نزاکتیں، حکمتیں، علامتیں، صداقتیں،حیثیتیں اور معنویتیںانھوں نے تین سو سولہ صفحے کی اس کتاب میں بھر دی ہیں، ہم جیسے اُردو کے نام نہاد اساتذہ کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پھر اپنی سو صفحے کی دوسری کتاب میں انھوں نے ’’اُردو کا مقدمہ‘‘ جس زبانی محب اور لسانی قانون دان کی مانند لڑا ہے، وہ بھی لائقِ توجہ ہی نہیں قابلِ رشک ہے۔ اسی طرح غازی صاحب کی تیسری محبت ’’میزانِ انتقاد و فکر‘‘ کی صورت ہمارے سرہانے دھری ہے، جس میں شخصیات، ادبی اصناف اور نئی نویلی کتب کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس میں بھی ان کی حیثیت ڈاہڈے عاشق کی سی ہے، جو انسانی تعلق پہ لسانی تعمق کو قربان کرنے پہ کسی صورت تیار نہیں!!! (جاری ہے)