صرف ایک دن کی دوری پر، ’سن دو ہزار بیس‘ سال گزشتہ میں ڈھل جائے گا۔ مگر یہ سال محض ایک ’’اور برس‘‘ نہیں تھا، کہ آیا اور گزر گیا۔ اس برس کورونا وائرس کی صورت میں وبا کی جو آندھی چلی اس نے بہت کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کے ایک سیٹ پیٹرن کو اپنی آنکھوں سے بدلتا ہوا دیکھا ہے۔ ہم خود برسوں سے جس زندگی گزارنے کے جن طور طریقوں کو اپنائے ہوئے تھے، وہ بدل کر رہ گئے ہیں۔ انسان انسان کا دارو، سمجھا جاتا تھا۔ اس برس نے ہمیں بتایا کہ انسان کو انسان سے خطرہ ہے۔ فاصلے دوریاں، کبھی منفی معنوں میں استعمال ہوتے تھے اور اب ’’فاصلہ‘‘ رکھنا ہی عقلمندی ہے۔ ’’چھ فٹ کا فاصلہ‘‘ صحت مند زندگی کی ضمانت ہے۔ اس پراسرار وائرس نے قربتوں کو خوفناک بنا دیا۔ دوست احباب اور اپنے پیاروں کو دیکھ کر کھل اٹھنا، مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانا، تپاک سے گلے لگانا، یہ سب اچھے دنوں کی یادگار بنا رہا۔ کتنے شعروں نے اس برس اپنے معنی کھو گئے۔ ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیمارکا حال اچھا ہے۔ بیمار کے لیے تیمار دار کالمس بس خواب بن کر رہ گیا۔ اس نا ہنجار وائرس نے جس پر حملہ کیا اسے اپنے پیاروں کے لیے اچھوت بنا دیا۔ وائرس کا شکار اب اپنی بیماری اور تنہائی دونوں سے اکیلے نبردآزما ہوتا ہے۔ پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار والی صورت حال سن2020ء میں ایک خوفناک حقیقت کی صورت ہمارے سامنے آئی۔ ا جنبی سا لفظ قرنطینہ، عام بول چال کا حصہ بن گیا۔ بیمار کو قرنطینہ کر کے، گھر سے الگ تھلگ کر دیا جاتا، بس کمرے سے باہر دوا، دارو، اشیائے خورونوش رکھو دو اور خود 20سیکنڈ تک ہاتھ دھو کر اپنے اوپر ڈیٹول پانی کا سپرے کر کے خود کو جراثیم سے پاک کرو۔ جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر، روح تک مسیحائی کا تاثیر اتارنے کے سارے تصور اس برس حرف غلط ثابت ہوئے۔ اس وائرس کے ہاتھوں کتنے پیارے جان سے گزر گئے۔ اب یہاں مجبوری اور تنہائی کا لگ ہی عالم رہا، غمزدہ ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو نہیں سکتے۔ بچھڑنے والا کس عالم تنہائی میں، آخری سانسیں پوری کر کے موت کی آخری تنہائی میں اترا۔ اس کے پیاروں کو کوئی خبر نہیں۔ کسی نے آخری وقت پانی منہ میں نہیں ڈالا۔ کوئی محبت کرنے والا چاہ کر بھی، درد کے ان ناقابل بیان لمحوں میں قریب نہیں تھا۔ یخ بستہ وجود کا آخری لمس، آخری دیدار، آخری غسل، پیچھے رہ جانے والوں کی یاد میں کچھ بھی نہیں کہ اچھوت زدہ وجود کو جراثیم کش طریقوں سے ’’آخری رسومات‘‘ سے گزار کر تابوت بند کر دیا گیا۔ تعزیت کرنے والے، پرسا دینے والے۔ خوف زدہ ہو کر اپنے اپنے گھروں سے ٹیلی فون کر کے تعزیت کرتے ہیں۔ مرنے والے کے پیاروں کو اس کے بچھڑنے کے غم کے ساتھ یہی دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں کسی بے احتیاطی سے وہ اس جان لیوا وائرس کا شکار نہ ہو جائیں۔ بیماری اور موت سائے کی طرح پیچھے لگی ہے۔ خوف دلوں کو جکڑے ہوئے ہے۔’’ہم کتنا ایک سال کے اندر بدل گئے‘‘ نہ جانے کس کے شعر کا یہ مصرع ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ سال دو ہزار بیس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ایک نادیدہ وائرس نے پوری دنیا کی رونقیں سلب کر لیں۔ مندر، مسجد، چرچ، کسینو، نائٹ کلب سب ویران ہو گئے۔ کعبۃ اللہ کا خالی خالی منظر تو دل کو آبدیدہ کر دینے والا تھا۔ ایران سے شاعر کے اداس دل سے اٹھنے والی آواز پوری دنیا کے ویران منظر نامے پر چھا گئی۔ شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی شہر، گلیاں سڑکیں خالی ہوئیں تو سٹے ایٹ ہوم نے گھروں کو بھر دیا۔ صبح ہوتے ہی اپنے اپنے کاموں پر نکلنے والے افراد خانہ جو ویک اینڈ پر ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے تھے۔ نادیدہ وائرس کے خوف سے گھروں میں رکنے پر مجبور ہو گئے۔ محفلیں اجڑ گئیں مگر گھر آباد ہو گئے۔ گھر کے در و دیوار بھی مکینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران تھے اور خود مکین بھی۔ ایک دوسرے کی رفاقت کے اس قدر عادی نہ تھے۔ سو اس جبری خانہ محصوری کے دنوں نے کہیں تو رشتوں میں موجود دراڑوں کو رفو کیا اور کہیں معاملہ اس کے برعکس رہا، جہاں رشتوں کی ڈوریں صرف اس لیے سلامت تھیں کہ صبح سے شام تک کی دوری سے ایک دوسرے کو سانس لینے کی سپیس ملی ہوئی تھی وہاں ٹکرائو ہوا، باہمی رنجشوں کی چنگاریاں، الائو میں بھڑک اٹھیں۔بس کیا کہیے کہ وبا کے سونامی نے ہر شے کو ادھیڑ کر رکھ دیا جو جس جگہ پہ تھا، وہ وہاں پر نہیں رہا۔ سکول بند، کالج، یونیورسٹیاں بند اور طالب علم آن لائن کلاسوں کے لیے سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ پہلے سکولوں میں بچوں کو سمجھایا جاتا تھا کہ کم سے کم سکرین ٹائم رکھیں۔ سکرین آنکھوں اور ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ اب پانچ چھ گھنٹے وہی بچے سکرین پر نظریں جمائے سبق پڑھتے ہیں۔ سکرین سے ہٹ جائیں تو سکول کی طرف سے تنبیہی پیغام آتے ہیں کہ آپ کا بچہ آف لائن کیا وقت ضائع کر رہا ہے، اسے فوراً آن لائن سکرین پر بٹھایا جائے۔ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ جہاں اس بلائے ناگہانی سے انسان بے امان اور پریشان رہا، وہیں فطرت نے کچھ سکون کا سانس لیا۔ کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی دنیا بھر کی سڑکوں پر دھواں اڑاتی کروڑوں گاڑیاں رک گئیں تو فضا میں زہریلے مادوں کی مقدار میں کمی واقع ہوئی۔ ماہرین ماحولیات نے اسے خوش آئند قرار دیا۔زندگی، اندر باہر سے جتنی تبدیل ہوئی، یہ سطریں محض اس کا دیباچہ ہیں۔ سو پکچر ابھی باقی ہے۔ زندگی نہ جانے کب تک اس "New Normal"کے زنداں میں قید رہے گی۔ اس پر حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ حتمی رائے یہی ہے کہ سن 2020ء ناقابل بیان اور ناقابل یقین تبدیلیوں کا سال رہا۔ بس حیرت سے ہم یہی سوچتے ہیں کہ۔ ہم کتنا ایک سال کے اندر بدل گئے۔