ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ مگر اب آبائواجداد کے گناہوںکے سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔ بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اسپر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ بھارتی سیکولرازم او ر اسکے لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ 1935ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد سے ناراض مسلمانوں نے جلوس نکالا تو کئی افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تحویز پیش کی۔ معروف قانون دان اور مورخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انہوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عملداری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے 70 سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے‘ جبکہ شاید ہی اب کوئی سکھ اب اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔ اسکے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ہندوتوا کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی بتایا ۔ انہوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ 1992ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998ء میں بی جے پی حکومت نے انہیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔ نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتاب’’ڈسٹرکشن آف بابری مسجد:اے نیشنل ڈس آنر‘‘ میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے ویشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کیلئے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوسناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں ،جو پچھلے 20برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،نے بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔ (ختم شد)