ہمارے ہاں بے شرم لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں، جو جتنا بڑا تارک الشرم ہوتا ہے اسے اسی قدر ذہین ،قابل احترام اور قابل انعام و اکرام مانا جاتا ہے، اس مقام عالیہ تک پہنچنے کیلئے مسلسل دوڑ لگی رہتی ہے ، یہ دوڑ کسی ایک مقام پر نہیں ،ہزاروں لاکھوں جگہوں پر جاری ہے، اس کا کوئی دورانیہ نہیں، یہ ایک عمل مسلسل ہے، اس مقابلے میں جوچھوٹے بے شرم کسی اعزاز سے محروم رہ جاتے ہیں وہ مزید سرگرم ہوجاتے ہیں کہ شاید اگلا انعام انہیں ہی مل جائے،یہ وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ بے وقعت انسان کا خون ہے، اس سچائی کے لئے نہ کوئی کالم لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی مضمون ، میں نے یہ تمہید بس غصے میں ہی باندھ دی، ورنہ میں تو آج ایک بیوروکریٹ کی شان میں قصیدہ لکھنے جا رہا تھا، ان پاکباز بیوروکریٹ کا نام ہے فضیل اصغر اور عہدہ مبارکہ ہے ان کے پاس پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری کا،موصوف بدھ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے سانحہ ساہیوال پر ایوان بالا کو بریفنگ دی، ایک طرف تو وہ مان رہے تھے کہ پولیس نے بے گناہوں کو مار دیا جو ایک غلطی تھی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کے ڈرائیور ذیشان کو القاعدہ کا دہشت گرد ثابت کرنے کی مہم میں اپنا کردار نبھاتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا،،، بچ جانے والے معصوم بچے نے جو پہلا بیان دیا تھا وہ باپ، ماں اور بہن کے مارے جانے کے صدمے کے باعث دیدیا تھا، بچے کا پہلا بیا ن یہ تھا کہ ،، اس کا باپ قاتل پولیس والوں کے سامنے گڑ گڑاکر کہہ رہا تھا کہ مجھ سے پیسے لے لو، مجھے گولی نہ مارو،، بچے کا یہی بیان پولیس گردی کے خلاف سب سے بڑی شہادت ہے، سینٹ کمیٹی نے اس عوام دوست اور محب وطن بیوروکریٹ کے گوش گزار کیا کہ بچے کے بیان کی قانونی حیثیت بہت زیادہ ہے اسے آسان نہ لیا جائے، جیسے ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کیلئے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں بالکل اسی طرح پولیس کو ہمیشہ سے ہی ایک قتل کو چھپانے کیلئے سو قتل اور کرنا پڑے ہیں، سانحہ ساہیوال میں بھی تو یہی ہوا، خلیل فیملی کے ساتھ مارے جانے والے ذیشان کے قتل کو درست قرار دینے کیلئے دوسرے شہر کے دو اور لوگ بھی مار دیے گئے اور کہہ دیا کہ وہ ذیشان کے ساتھی تھے جو سانحہ ساہیوال وقوعہ سے فرار ہو گئے تھے، پولیس اس سانحہ کے سارے ثبوت مٹا چکی ہے، اس کے سارے گواہان کو خوفزدہ کر چکی ہے، جے ا?ئی ٹی بھی پولیس کی ہی ہے، بہت سارے لوگ اس خد شے کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ اب خلیل اور ذیشا ن کے لواحقین کو انصاف کی نہیں اپنی جانیں بچانے کی ضرورت ہے، خلیل کے بھائی کی تردید کے باوجود یہ سچ ہے کہ ان دونوں گھرانوں کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔۔ پولیس کی ناقص بیان بازی بھی ایک خطرناک بات ہے، یہی وجہ ہے کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کو اپنی پریس بریفنگ میں کہنا پڑا کہ پاکستان میں القاعدہ نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ، پولیس کی اس کھلی دہشت گردی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے لاکھوں کروڑوں بچوں نے اب خود کو ہی نہیں اپنے ماں باپ اور دوسرے پیاروں کو بھی غیر محفوظ تصور کرنا شروع کر دیا ہے، ان کے دل و دماغ میں کئی سوال اٹھتے ہوں گے جو وہ اپنے والدین سے نہیں کر سکتے ہوں گے، یہ نسل تصور کر سکتی ہے کہ وہ ایک آزاد مملکت میں نہیں پولیس اسٹیٹ میں جوان ہوگی، خوف کے سائے تلے پلنے والے یہ ہمارے بچے،پیارے بچے کیسے مان لیں کہ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں، حکومت وقت کو سانحہ ساہیوال کی سنگینی اور اس کے دور رس نتائج سے بچنے کے لئے ان بچوں کی ملک گیر سطح پر کونسلنگ کرنا ہوگی، پولیس کا آئر لینڈ والا ڈھانچہ بدلنا ہی نہیں یکسر ختم کرنا ہوگا، ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ نظام کو بدلنا ابھی بہت دور کی بات ہے، عوام کو شریک اقتدار کرنے کا تو ابھی ہم خواب بھی نہیںدیکھ سکتے،سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ رحمان ملک نے سانحہ ساہیوال کے لواحقین سے ملاقاتیں کی ہیں، اس کمیٹی میں شامل سینیٹر جاوید عباسی کی اس بات سے ہمیں بہت حوصلہ ملا کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے، ساری قوم جانتی ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، فیصلے کی یہی ایک لا ئن اس واقعہ کو غلطی قرار دے کر دفنا دے گی اور قوم پھر اسی قسم کے کسی اگلے سانحے کی منتظر رہے گی، اس سانحہ نے میرے اپنے اندر ایک غیر جمہوری رویے کو جنم دیا ہے، سوچتا ہوں اس حادثے کی تحقیقات فوجی عدالت میں ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ پچھلا کالم روحی بانو کی ترکی کے کسی نجی اسپتال میں موت کی خبر پر لکھا تھا، میرا وہ کالم اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک مجھے ان سوالوں کہ جواب نہیں مل جاتے جو میں نے اس کالم میں اٹھائے ہیں، حکومتی سطح پر عوام کو آگاہ رکھا جائے کہ روحی کی بہن نے ترکی سے روحی کا لاش کی واپسی کے لئے دوبارہ کوئی رابطہ کیا ہے یا نہیں، اور حکومتی سطح پر روحی کی بہن سے کوئی رابطہ ہوا یا نہیں؟۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ رابطہ کرنے والوں کو اب روحی کی بہن اور بہنوئی کے موبائل ہی بند مل رہے ہوں؟ اس کالم پر دنیا بھر سے جو ردعمل آیا اس کی شدت بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں، اس کالم میں اٹھائے گئے سوالات کو جوپذیرائی ملی وہ روزنامہ نائنٹی ٹو اور اس کے کارکنوں کے نام منسوب کرتا ہوں، میں تو بس یہ جان کر ہی خوش ہوں کہ روزنامہ نائنٹی ٹو کو دنیا میں کہاں کہاں نہیں پڑھا جاتا، مسلسل چار دن سے ہو یہ رہا ہے کہ ہر دوسری موبائل کال روحی بانو پر لکھے گئے کالم پر فیڈ بیک دینے والوں کی ہوتی ہے۔۔۔ آپ سب قارئین کا بے حد اور بے حساب شکریہ، انشا اللہ میرا ہر کالم صرف اپنے قارئین کے لئے ہوگا۔ ٭٭٭٭٭ ہیما مالنی کی طرح کشادہ دل رکھنے والی ودیا بالن چالیس برس کی ہو گئی ہیں (ودیا کے دل کو کشادہ اس لئے کہا ہے تاکہ سینے کی باتیں سینوں تک ہی محدود رہیں) اور اب انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی اداکارائیں عام طور پرمردوں سے ڈرتی اور گھبراتی ہیں،ان سے خوفزدہ رہتی ہیں مگر چالیس کا فگر مکمل ہوتے ہی ان کا ڈر ختم ہو جا تا ہے اور وہ آسانی سے دوستیاں کر لیتی ہے، ڈرٹی گرل ودیا بالن واقعی اپنی بڑھتی ہوئی عمر اور موٹاپے کے بعد زیادہ چارمنگ ہو گئی ہیں، لیکن پاکستانیوں کے لئے دلی ہنوز دور است، ہمیں یاد ہے کہ سولہ سال پہلے جب ودیا کی شادی ہوئی تھی تو انہوں نے اپنے شوہر کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میرے پاس ماں بننے کیلئے وقت نہیں ہے،ودیا کی ایک فلم کا نام بہت زبردست تھا۔۔۔۔ شادی کیسائیڈ افیکٹس۔۔۔ بوبی جاسوس کے اس بیان سے اسے چاہنے والوں کو لگ یہی رہا ہے کہ اب وہ دوستی کیلئے فارغ ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ مرد کبھی فارغ عورتوںکا تعاقب نہیں کرتے۔