ان سے ملئے…یہ شیخ زید ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور لاہور میں اکیلے ہی رہتے ہیں۔ سی ایس ایس کرنا چاہتے ہیں۔ آپ انہیں کرنٹ افیئرز اور پاک اسٹڈیز پر گائیڈ کر دیں۔حسن نثار صاحب بولتے جا رہے تھے اور میں حیرت سے اس خوبصورت نوجوان کو دیکھ رہا تھا۔ کھلتا ہوا رنگ‘ فربہی کی طرف مائل جسم۔ چہرے پر ایک مؤدب سا تاثر‘ سلور فریم کی خوبصورت عینک اور ذرا لاپرواہ مگر قیمتی کپڑے۔مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ان دنوں میں نے نیا نیا ایک روزنامہ بھی جائن کیا تھا ۔ میری ایم فل کی کلاس بھی تھی اور میں خود بھی IRپڑھا رہا تھا۔مگر حسن نثار صاحب سے انکار کی جرأت نہ ہوئی اور یوں سلسلہ ملاقات شروع ہو گیا۔ وہ کمال کا مؤدب تھا۔ اگر رات دس بجے کا وقت ہو گیا ہے اور مجھے گھر پہنچنے میں تاخیر ہو گئی ہے تو وہ اپنی گاڑی میں میرے گھر کے باہر انتظار کرتا رہا۔کیا مجال جو اس کے چہرے پر بل آتا ہو۔ ایک شے البتہ مجھے پریشان کرتی۔اس کے ساتھ ہمیشہ دو بندے ایسے ہوتے جو وردی میں تو نہ ہوتے مگر ان کے چہرے اور باڈی لینگوئج بلند آواز میں اعلان کر رہے ہوتے کہ ہمارا تعلق پولیس سے ہے۔ ایک دن پوچھ ہی لیا۔ ڈیئر یہ کون ہیں؟ اور بعض دفعہ چہرے اور بندے بدل بھی جاتے ہیں۔ادب اور جھجھک کے ساتھ جواب آیا’’سر!وہ میرے کزن ہیں۔ کیپٹن مبین۔ وہ پولیس میں ہیں۔ تو پھر؟ بس ابو اسلام آباد ہوتے ہیں۔ مبین بھائی کو ابو نے کہا ہوا ہے اس لئے وہ ساتھ بھیج دیتے ہیں ان سرکاری گارڈز کو۔ رفتہ رفتہ وہ میرے قریب ہوتا چلا گیا۔ اپنے ادب کی وجہ سے اور لاہور میں اکیلا ہونے کی وجہ سے بھی۔ سٹڈی سے بات چائے تک آئی اور پھر ہم کھانا بھی اکٹھے کھانے لگے۔ وہ میرا لیکچر ریکارڈ کر لیتا اور اگلے دن اسے ری پروڈیوس کر لاتا۔ ایک دن ہم سول ملٹری تعلقات پر ایک امریکی مصنف کی کتاب پر بات کر رہے تھے کہ میرے موبائل پر ایک کال آئی۔ جو سر‘ رائیٹ سر‘ یس سر‘ جی بہتر کہہ کر فون بند کر دیا۔ اب نوجوان سٹوڈنٹ کے حیران ہونے کی باری تھی۔ سر یہ کون تھے؟بس انہیں میرے استاد کہہ سکتے ہو‘ راہنما بھی اور ایک درویش بھی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہنے لگا’’سر!ایک کپ چائے اگر مل جائے تو‘‘؟ملازمہ نہیں تھی‘ میں خود اٹھ کر گیا اور کچھ دیر بعد واپس آ گیا۔ وقت گزر گیا۔ سی ایس ایس کا امتحان بھی ہر سال کی طرح آیا اور چلا گیا۔ ڈاکٹر بھی امتحان ختم ہوتے ہی چلا گیا۔ زندگی ذرا زیادہ مصروف تھی۔ نہ میں نے فون کیا نہ اس نے۔ پھر ایک دن اس کا فون آ گیا۔ سر میں آنا چاہتا ہوں۔ مغرب کے بعد آ جائو۔ وہ آیا اور کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا’’سر!رزلٹ آ گیا ہے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو کہنے لگا’’سر! ایک الیکٹو مضمون میں فیل ہو گیا ہوں۔ غالباً Forestryتھا۔سر میں دوبارہ امتحان دینا چاہتا ہوں۔ مگر میرے پاس اس بار وقت نہیں ہے۔ سر میں نے آپ سے ایک سچ چھپایا تھا۔ اب کہہ دو۔’’سر ! میرے والد چیف جسٹس پاکستان ہیں۔ ان کا نام افتخار محمد چودھری ہے’’ مگر میرے پاس واقعی وقت نہ تھا۔ پھر ایک دن درویش کا فون آ گیا۔ ہفتے کی شام کیا مصروفیت ہے۔ سر آپ حکم کریں۔ بھئی رات کا کھانا میری طرف سے۔ایک باادب رشتے میں پتہ نہیں یہ کھانا کیوں آ گیا۔ یہ سوچتے سوچتے ہفتے کی شام۔ بلکہ رات کو میں ان کی طرف تھا۔ باہر ڈور بیل بجی۔ نوکر نے آ کر بتایا کہ افتخار صاحب آئے ہیں۔ کچھ دیر بعد سردیوں کالا نگ کوٹ پہنے ایک شخصیت ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ درویش بولے’’ان سے ملئے یہ ہیں آپ کے بچے کے استاد‘ان سے ہاتھ ملا کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ میرے کس شاگرد کے والد ہو سکتے ہیں۔کچھ کنفیوژ سا ہو کر میں نے انہیں کہا کہ آپ تشریف رکھیے۔تو کہنے لگا’’جب تک آپ کھڑے ہیں میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں‘‘؟میں بیٹھا ہی تھا کہ صاحب خانہ کمرے میں تشریف لائے اور گویا ہوئے’’آپ نے غالباً پہچانا نہیں۔ یہ ہیں چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری صاحب۔ میں دوبارہ کھڑا ہوا۔ ان سے دوبارہ ہاتھ ملایا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔ تب پتہ چلا کہ میرے فون سے ڈاکٹر ارسلان نے درویش کا نمبر لیا اور اپنے والد کو دے دیا۔افتخار صاحب کی کال تعلق میں بدل گئی۔ اب مجھے سب کچھ سمجھ آ رہا تھا۔ باقی ان کے جانے کے بعد سمجھ آگیا۔ ایک دن ڈاکٹر ارسلان کا فون آ گیا۔ سر میری پوسٹنگ ماڈل ٹائون میں بطور ایس پی ہو گئی ہے۔ مگر تم تو سی ایس ایس میں فیل ہو گئے تھے ناں۔ سر وہ گھر آ کر بتائوں گا۔ آپ چائے بنوائیے ویسی ہی جیسی آپ پلایا کرتے ہیں۔ وہ آیا اور پھر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اب کے بعد موضوع کرنٹ افیئرز نہیں۔ دیگر افیئرز ہوتے۔ مجھے لگا وہ بدل رہا ہے۔ دھیرے دھیرے۔ ایک آئیڈیلسٹ نوجوان سے پاور پلے کا خوگر بندہ بن رہا ہے۔ طاقت اور دولت کی خواہش اس کے اندر بوٹوں سمیت گھستی چلی جا رہی ہے۔ میں کوشش کرتا کہ گفتگو تاریخ پر ہو‘ فلسفے پر‘ مذہب پر اور درویشی پر ہو۔ اسے دلچسپی تھی برینڈز اور کاروں کے ماڈلز میں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی سیر میں کون کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟کوریڈورز آف پاور میں۔یاد رہے کہ اس وقت وزیر اعظم شوکت عزیز تھے اور صدر بمعہ وردی مشرف۔ ارسلان ایس پی بن گیا اور اصل حکمرانوں نے اس کے باپ کے خلاف چارج شیٹ تیار کرنا شروع کر دی۔ ارسلان کو ایک پاور بروکر نے کہا کہ اگر تم نوکری چھوڑ دو تو تمہارے باپ کے خلاف کیس کمزور ہو جائے گا۔ وہ کندھے اُچکا کر رہ گیا۔ پھر جب افتخار صاحب کو مشرف اینڈ کمپنی نے بلا کر استعفیٰ مانگا تو کس کا کیا کردار تھا اور وہ کیونکر بحال ہوئے۔ پس پردہ عوامل کیا تھے یہ کہانی پھر سہی…