وزیر اعظم عمران خان کی اپیل پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تنازع کشمیر پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ خصوصی اجلاس میں سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ ترکی ‘ انڈونیشیا و دیگر ممالک کی شرکت متوقع ہے۔ اجلاس اسلام آبادمیں بلایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہونے پر پاکستان میں طویل مدت بعد کوئی بڑا بین الاقوامی اہمیت کا اجلاس ہو گا۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے بعد کی صورت حال کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ او آئی سی کا بنیادی مقصد مسلمان ممالک یا دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے بین الاقوامی رابطوں کے ذریعے متحرک کردار ادا کرنا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ کے بعد پاکستان نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو متحرک کیا اور او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے کے لئے کردار ادا کیا۔ عراق پر امریکی حملہ ہو‘ افغانستان پر سوویت افواج کا قبضہ ہو۔ برسا کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ ہو‘ فلسطین پر اسرائیل کے مظالم کی بات ہو یا سعودی عرب کے سکیورٹی تحفظات ہوں پاکستان نے عربی و عجمی کا امتیاز چھوڑ کر خالصتاً اُمہ کے مفاد میں کردار ادا کیا۔ ہر بار او آئی سی کا سربراہی یا وزارتی اجلاس فوری بلایا گیا اور مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لئے تفصیلی غورو فکر ہوا۔ اہل پاکستان کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے برادر ممالک کا طرز عمل اس لحاظ سے قابل تعجب رہا ہے کہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بدلنے‘ مقبوضہ کشمیر میں ڈیڑھ سو روز سے جاری کرفیو اور اب بھارت میں مسلمانوں کو کچلنے کے لئے متنازع شہریت بل کے حوالے سے عرب بھائیوں کا ردعمل مایوس کن رہا بلکہ ترکی اور ملائشیا نے جب کھل کر اہل کشمیر کے لئے آواز بلند کی تو ان کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سامان کیا گیا۔ او آئی سی دنیا کے ستاون مسلم ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت کے لاکھوں شہری عرب ممالک میں کام کرتے اور زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہیں۔ بھارت کی کاروبار کمپنیاں عرب ممالک سے اربوں ڈالر سالانہ کماتی ہیں۔سعودب عرب میںکام کرنے والی معروف کمپنی آرامکو کے 10ارب ڈالر کے حصص حال ہی میں بھارت نے خریدے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا بھارت کی مجبوری ہے سعودی عرب اور عرب امارات کی ایسی کوئی مجبور نہیں۔ گزشتہ دنوں بعض ایسی رپورٹس ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوئیں جن میں کوالالمپور کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کی عدم شرکت کے اسباب کا ذکر کیا گیا تھا۔ چونکہ کانفرنس سے چند روز قبل وزیر اعظم سعودی عرب تشریف لے گئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے متحدہ عرب امارات کی قیادت سے ملاقات کی۔ اس ساری صورت حال میں کوالالمپور کانفرنس کو متنازع بنا دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعوی عرب اور یو اے ای نے معاشی مشکلات میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی لیکن سیاسی و سفارتی مشکلات میں ان سے جس تعاون و مدد کی امید کی جاتی ہے وہ پاکستان کو حاصل نہ ہو سکا۔ اس بات کا احساس بھارتی حکومت کو ہے اس لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے رفقاء سرعام کہتے پھرتے ہیں کہ عربوں سمیت کشمیریوں کی مدد کو کوئی نہیںآئے گا۔ یہ امرخوش آئند ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کشمیر کے معاملے پر او آئی سی اجلاس بلانے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کو ترکی اور ملائشیا کی خصوصی طور پر شرکت کو یقینی بنانے کے لئے سعودی عرب کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ کشمیریوں کے حق میں بروقت اور بلند آواز اٹھانے والے ان دوملکوں کو ایسی کانفرنس میں نظر انداز کیا گیا تو پاکستان کے لئے یہ بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ او آئی سی اجلاس کی قرار دادیںاور فیصلے اس سلیقے سے ترتیب دیے جائیں کہ بھارت اس اجلاس کے بعد خود پر ایک ایسا دبائو محسوس کرے جس سے نکلنا اس وقت ممکن ہو جب وہ کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی قانون سازی واپس لے۔ پورا مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا و مغربی ایشیا مسلمانوں کے لئے اذیت دہ بنا دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں مسلم امہ کے اتحاد کی علامت او آئی سی نے کشمیر پر رسمی انداز میں اجلاس بلایا اور پھر رسمی کارروائی کر کے خود کو بری الذمہ قرار دیا تو معاملہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔او آئی سی کا سربراہ اجلاس کئی عشروں سے بے قاعدگی کا شکار ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے مقاصد کو جدید چلینجز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کو پسماندگی سے کس طرح نکالا جائے، غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کو کس طرح تعلیمی ‘ مالی اور سماجی مدد دے کر طاقتور بنایا جائے کہ وہ اپنا تحفظ کر سکیں یہ سب امور او آئی سی کی توجہ چاہتے ہیں۔ سردست مقبوضہ کشمیر کی حالت پریشان کن ہے۔ مسلسل کرفیو اور چوبیس گھنٹے بھارتی فوج کی کارروائیوں نے کشمیریوں کے دکھ بڑھا دیے ہیں۔ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم رکھنے کی کوشش کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ یہ امر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ پاکستان سے جس طرح مشرق وسطیٰ میں کردار ادا کرنے کی توقع کی جاتی ہے اسی طرح کی توقع پاکستان کشمیر کے حوالے سے مسلم ممالک کی حمایت کی صورت میں کرتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں کشمیر کی صورت حال پر صرف غور نہیں کیا جائے گا بلکہ کچھ ایسے ٹھوس اور موثر فیصلے بھی او آئی سی اجلاس میں کئے جائیں گے جن سے پوری امہ جسد واحد میں ڈھل جائے اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے دوسروں کی دست نگر نہ رہے۔