انہیں یہ فکر ہے کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اداروں کی تضحیک ہوئی ،کسی بھی ادارے کا مقدس پن کسی ایک انسان کی زندگی کی تقدیس سے بڑھ کر نہیں لیکن یہاں روز کروڑوں غریب پاکستانیوں کی تضحیک ہو رہی ہے۔غریب پاکستانیوں کی تضحیک ہی تو ہے جب انہیں ان کی بھوک کے مطابق کھانے کو میسر نہیں ہوتا بیماری میں دوا نہیں ملتی۔ایسے نادار والدین کی تکلیف کا اندازہ لگائیں کہ جنہیں اپنی جان سے پیاری اولاد کو اپنے سامنے بھوک برداشت کرتے ،ضرورتوں کو دباتے اور خواہشوں کو کچلتے دیکھنا پڑتا ہے۔ ممتاز شاعر اسلم کولسری نے یہی تکلیف کس دل گداز انداز میں بیان کی میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا 2020ء کا اقتصادی سروے بتاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں خط غربت کے نیچے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اقتصادی سروے کے مطابق خط غربت کے نیچے زندگی کو سسک سسک کر گزارنے والے پانچ کروڑ نہیں اب چھ کروڑ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔چھ کروڑ پاکستانی ایسے ہیں جن کی زندگی غربت کے پل صراط پر گزر رہی ہے وہ جس اذیت اور تکلیف میں زندگی گزار رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تازیانے اور حکومتوں کی مسلسل بے حسی ان چھ کروڑ انسانوں کی تضحیک کرتی ہے۔ ریاست کے فرائض میں سے اہم ترین فرض یہ ہے کہ وہ ایسے حالات اپنے شہریوں کو فراہم کرے جس سے وہ ان تمام بنیادی ضرورتوں کو آسودگی اور سہولت سے پورا کر سکیں جو انسان ہونے کے ناطے ان کی ضرورت ہیں اور وہ انسانی سطح پر جینے کے قابل ہوسکیں۔بھوک میں پیٹ بھر کر کھانا میسر ہوبیماری میں دوا میسر ہو۔ایک غریب دیہاڑی دار اتنا کما ئے کہ وہ اپنے خاندان کو دو وقت کی روٹی اور سالن کھلانے کے قابل ہو سکے۔یہ کم سے کم ہے جو ریاست اپنے شہریوں کے لیے کرتی ہے۔ لیکن کہنے دیجئے کہ اس وقت ریاست اپنے ا س اہم ترین بنیادی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوچکی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ وزیراعظم سے کہوں کہ خوش فہمیوں کے شیش محل سے باہر نکل کر لاہور شہر کے چوک اور چوراہوں پر بیٹھے ہوئے بیسیوں مزدوروں کے ہجوم کو دیکھیں۔ہمت پڑے تو ان غریبان شہر کے غربت زدہ چہروں کو ایک نظر غور سے دیکھیں۔ حسرت اوربے چارگی کے کتنے جہان ان کی آنکھوں میں سلگتے نظر آئیں گے۔ان کے دل کی ہر دھڑکن اہل اقتدار کے نام ایک بددعا ہے۔صبح کے اوقات میں آس پاس کے مضافات سے سینکڑوںمزدور مزدوری کی خواہش میں چوراہوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور سڑکوں پر سے گزرنے والی لاکھوں کروڑوں کی بیش قیمت گاڑیاں آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ مہنگائی کی صورتحال اتنی بدترین ہوچکی ہے کہ کاروبار زندگی پر سست روی طاری ہے۔ مزدوروں کو اجرت پر کام کرنے کے لئے لے جانے والے کم ہیں۔مزدوری مل بھی جائے تو دیہاڑی کے چند سو روپے مہنگائی کے خوفناک سونامی کے سامنے اپنی اوقات کھودیتے ہیں۔یہ چند سو روپے اس دن سے جڑی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے انکار کردیں تو بتائیے ایک غریب شہر اپنی زندگی کی اس تضحیک پر کہاں احتجاج کرے۔خط غربت کے نیچے کھسک جانے والے، خط غربت کے اوپر اور اس منحوس خط کے آس پاس ہمسائے میں رہنے والے سفید پوش اور متوسط کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کی اس ملک میں روز تضحیک ہورہی ہے۔جب آپ مہنگائی کو نہ صرف کنٹرول کرنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ پہلے سے مہنگائی سے ادھ موئے عوام کوآئے روز بجلی ،گیس ،پٹرول بڑھنے کی خبر دیتے ہیں۔ جب آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں اپنے لوگوں کی آسودگی اور عزت گروی رکھ دی گئی ہو تویہ کروڑوں پاکستانیوں کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ان کی تضحیک کرنے والے ہر طرح کے اہل اختیار ہیں وہ بھی جن کا نام ہم لے سکتے ہیں اور وہ بھی جن کے حوالے سے ہم اشارے کنایوں میں بات کرتے ہیں۔کیونکہ اقتدار کے اس کھیل میں سب برابر کے شریک ہیں۔ سیاستدانوں کو برا کہنا آسان ہے۔ہم ہمیشہ سیاستدانوں کے خلاف لکھتے ہیں لیکن سیاست کا یہ کھیل اتنا سیدھا نہیں ہے اس کے در پردہ بہت سی طاقتیں ہیں اور ان سیاستدانوں کے بہت سے سہولت کار ہیں ،سیاست کے دائرے سے باہر رہ کر بھی حکومتوں پر اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ اس ملک کے غریب کے ساتھ کسی نے وفا نہیں کی۔غریب کے نام پر ووٹ لینے والے حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو غریب انہیں کبھی یاد نہیں رہتا۔اپوزیشن کو بھی غریب شہر اپنی سیاست کے ایجنڈے کے مطابق یاد آتا ہے۔ تحریک انصاف نے آغاز میں پناہ گاہیں بنائیں کہ ملک میں نادار افراد دو وقت کا کھانا کھا سکے، لیکن یہ غربت کا علاج نہیں بلکہ غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ،کیا اہل اختیاریہ سمجھتے ہیں کہ غریب لوگ عزت اور انا سے عاری ہوتے ہیں اور کیا وہ کہیں پر بھی ہاتھ پھیلا کر مفت روٹی کھانے پر تیار ہو جائیں گے۔اور کیا صرف مفت روٹی کھانے کے بعد ان کی زندگی کی باقی ضرورتیں ختم ہو جاتی ہیں۔؟اور اب تو حال یہ ہے کہ شہر میں کھلنے والی کئی نمائشی پناہ گاہیں بند ہو چکی ہیں۔ نہ پناہ گاہوں سے غربت دور ہوتی ہے نہ تقریروں سے غریبوں کا پیٹ بھرتا ہے۔مگر خوش فہمی اور اونچی اونچی بڑھکوں کے غبار میں گم مریخ سے اترنے والے اہل اقتدار کو کون سمجھائے ؟ میرا سوال تو بس یہی ہے کہ چھ کروڑ نادار پاکستانیوں کی تضحیک کا ذمہ دار کون ہے؟؟