وزیر اعظم عمران خان نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو کے دوران مقبوضہ کشمیر کی سابق حیثیت بحال کرنے کا روڈ میپ دینے کی شرط پر بھارت سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کو 5اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدامات واپس لینا ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی ایشیا میں غربت ختم کرنے کا بہترین طریقہ باہمی تجارت ہے۔ اس انٹرویو میں وزیر اعظم نے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کے ممکنہ کردار اور پاکستان میں اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے بھی اہم نکات بیان کئے۔ پاکستان میں چار کروڑ سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں‘دور دراز کے بہت سے علاقے صاف پانی‘ ہسپتال‘ تعلیمی اداروں اور سڑکوں سے محروم ہیں۔ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر سرگرم ہیں۔ یہ سب معاملات حکومت اور متعلقہ اداروں کی توجہ کے طلب گار ہیں لیکن ان سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو اگلے کئی عشروں تک اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے وسائل دستیاب ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے‘ اس کی وجہ چھ سات گنا بڑے ہمسایہ ملک بھارت کا جارحانہ رویہ ہے۔ بھارت میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 60کروڑ سے زیادہ ہے‘ وہاں انسان سڑکوں اور کوڑے دانوں پر سوتے ہیں۔ غریب جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی زندگی اس لئے آسودہ نہیں ہو پا رہی کہ سوا ایک ارب آبادی والے بھارت کو خطے کی عظیم جنگی طاقت بننے کا جنون لاحق ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی سماج میں غیر ہندو آبادی کے خلاف تشدد کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے جب کبھی مذاکرات اور تنازع کشمیر کے حل کی بات کی بھارت نے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع کر دی۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ دنیا بھر کے تنازعات کو جنگ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ جنگیں تنازعات کی تعداد بڑھاتی ہیں۔ پاکستان نے کشمیر‘ فلسطین اور افغانستان کے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی حمایت کی۔ افغانستان کی حد تک پاکستانی موقف تسلیم کیا گیا اور اگلے ماہ تک جنگ سے تباہ حال افغانستان سے امریکی انخلا مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان نے حال ہی میں فلسطین پر اسرائیلی حملے کے خلاف ایک سرگرم اور فعال کردار ادا کیا جس نے اسرائیل اور اس کی بے جا حمایت پربضد امریکہ کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ پاکستان اس امر کا خواہاں ہے کہ بھارت خطے میں اقتصادی ترقی اور نئے معاشی و تجارتی مواقع کا راستہ روکنے کی بجائے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کرغربت میں خاتمے کی کوششوں کا حصہ بنے۔ بھارت اس وقت کورونا کی وبا‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی تنقید میں اضافے اور معاشی شرح نمو منفی 7.4فیصد ہونے پر پریشان ہے۔ اسرائیل ‘ فرانس ‘ امریکہ اور برطانیہ سے اربوں ڈالر کے دفاعی سودے بھارت کی معاشی حالت کو مزید دگرگوں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں بھارت نے پاکستان سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تو اسے سراہا گیا۔ پاکستان آگاہ ہے کہ بھارت ماضی میں مذاکرات کا جھانسہ دے کر وقت گزاری کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تہتر برس سے عملدرآمد کی منتظر قرار دادیں اس کا ثبوت ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان ‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی پیشکش کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی واضح کر دیا کہ بھارت جب تک کشمیر کے معاملے پر بات چیت نہیں کرتا اس وقت تک مذاکرات کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی جانب سے گروپ ڈائیلاگ کی تجویز سامنے آئی جس میں کشمیر‘ تجارت ‘ دہشت گردی اور عوامی رابطے کے معاملات پر الگ الگ گروپ بنا کر بات کرنے کا کہا گیا۔ اس تجویز کو مانا جا سکتا تھا اگر بھارت نے 5اگست 2019ء کا کشمیر سے متعلق یکطرفہ اقدام واپس لینے کا اعلان کیا ہوتا۔ مذاکرات کے لئے موزوں ماحول بنانے کی خاطر فریقین کو اپنی بعض پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایک فریق جارحانہ اقدامات کا ارتکاب کرتا رہے اور ساتھ ہی یہ توقع رکھے کہ دوسرا ان اقدامات پر تحمل کے نام پر خاموشی اختیار کر لے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے منطقی اور اصولی بات کہی ہے۔ بھارت کے پاس دو راستے ہیں ایک جنگ اور تصادم کا‘ جس پر وہ چل رہا ہے‘ یہ راستہ آخر کار ملک کی تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرا راستہ پرامن بقائے باہمی اور ترقی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔بھارت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ تہتر برس میں اس نے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے جو رقوم خرچ کیں اور جو بدنامی کمائی وہ نہ ہوتا تو آج پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات پورے خطے کی آسودگی اور خوشحالی کی صورت میں ظاہر ہوتے۔، بھارت مذاکرات کے لئے پرخلوص ہے تو اسے وزیر اعظم عمران خان کی باتوں پر ضرور دھیان دینا چاہیے۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی اگرچہ پاکستان کی ترجیح نہیں لیکن تنازع کو حل کرنے کے لئے اس علاقے کی پہلے والی حیثیت بحال ہونا ضروری ہے تاکہ اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرار دادوں میں جس علاقے کو متنازع قرار دیا گیا ہے اس کو اسی طرح رکھ کر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی راہ نکالی جائے۔