یہ مون سون اہلیان کراچی کبھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بھیانک خواب حقیقت بن سکتے ہیں۔ کراچی والوں نے شہری سیلاب کا صرف نام سنا تھا۔ اس بار انہوں نے نہ صرف شہری سیلاب کو دیکھا بلکہ اسے بڑی تکلیف سے بھگتا۔ اس کالم میں راقم الحروف اس کراچی کی بات نہیں کر رہا جو تھوڑی سی بارش میں بھی ڈوب جاتا ہے۔ ہم کراچی کے ان نشیبی علاقوں کی بات نہیں کر رہے جو سطح سمندر سے نیچے ہیں۔ جہاں بجلی جانے کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ وہ کراچی تو بارش کے بغیر بھی ڈوبا ڈوبا نظر آتا ہے۔ وہاں سیوریج کا پانی موجیں مارتا نظر آتا ہے۔ ہم اس کراچی کی بات نہیں کرتے جس کے مقدر میں غربت؛ پس ماندگی اور مسائل سے بھری ہوئی زندگی کا بوجھ ہے۔ ہم تو اس کالم میں اس کراچی کا تذکرہ کر رہے ہیں جو کراچی اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتا ہے۔اس لیے کراچی کے اس علاقے کا نام ہی ڈیفنس ہے۔اس مون سون میں یہ اس قدر غیرمحفوظ ہوگیا کہ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ عام لوگ کس طرح جیتے ہیں؟ کیا پاکستان کے امیر علاقوں کے مکین اس بات کا اندازہ بھی کرسکتے ہیں کہ اس علاقے میں بارش کا پانی کمر سے اوپر کھڑا ہو جائے اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے نہیں بلکہ تین چار دنوں تک اورپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ جائیں۔ وہ لوگ جن کے ڈبل اسٹوری گھروں میں نیچے والا پورشن بالکل ڈوب چکا ہو۔ گھٹنوں تک پانی کھڑا ہونے کے باعث آٹومیٹک جنریٹر جل چکا ہو۔ وہ لوگ موم بتیاں جلا کر رات گذارتے اور پوری رات مچھروں سے مقابلہ کرتے رہے ۔ان کے بچے روتے اور پالتو جانور شور مچاتے۔ ان کے پاس کھانے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے فرجوں میں پڑا سامان خراب ہوگیا۔ اب ان کو احساس ہوگیا ہے کہ جب تک ایک بہتر اور محفوظ نظام نہیں ہوگا، تب تک اس ملک میں کوئی بھی شہر، کوئی بھی محلہ اور کوئی بھی گھر اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا۔ وہ لوگ جو دولت اور ملکیت کے باعث اپنے اور اپنے خاندان کو ایک مخصوص بلبلے میں بند کردیتے ہیں اور خود کو ہر خطرے سے محفوظ تصور کرتے ہیں، اب ان کو بھی معلوم ہو گیا ہے کہ وہ بلبلہ پانی پر تیرتے ہوئے پھٹ سکتا ہے۔ وہ بلبلہ اس بار کراچی کی بارش کی موجیں میںپھٹ گیا اور کراچی کی سب سے محفوظ آبادی غیرمحفوظ ہوگئی۔ اس وقت تو کراچی کے علاقے ڈیفنس کے اکثر علاقوں سے پانی نکل چکا ہے مگر اب بھی چند علاقے ایسے ہیں جہاں دس دن کا پرانا پانی پوری بدبو کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ وہ علاقے میں جہاں اس شہر اور اس ملک کی ایلیٹ کلاس رہتی ہے۔ جہاں بیوروکریٹ بستے ہیں۔ جہاں سیاستدانوں کے گھر ہیں۔ جہاں وزیروں اور مشیروں کے خاندان خوشیوں کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں۔ وہاں صرف اس ملک کے بڑے لوگ ہی نہیں بلکہ قونصل خانوں میں کام کرنے والے غیرملکی رہتے ہیں۔ ان سب نے اس بار محسوس کیا کہ وہ کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس بار کراچی میں اس قدر بارش ہوئی کہ سندھ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وزیر اعلی اپنی کرسی اور اپنی پارٹی کی حکومت بچانے کے لیے رین کوٹ پہن کر دو وزیروں کے ساتھ پانی میں بچوں کی طرح پھرتا رہا مگر کیا وزیر اعلی کے پیر گھمانے سے بارش کا پانی نکل گیا؟ ۔ اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی کرپشن سے پاک کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ احساس سب کو ہوگیا ہے کہ انہیں اپنے تحفظ کے لیے صرف سوشل میڈیا پر انگریزی میں چیخنا چلانا نہیں چاہئیے۔ انہیں اپنے حق کے لیے آرام دہ گھروں سے نکلنا چاہئیے۔ ن کا کتنا نقصان ہوا ہے؟ ان کے ڈرائنگ روموں اور ان کے بیڈ روموں کا سارا سامان امپورٹڈ تھا۔ ان کے قالین کتنے قیمتی تھے۔ وہ ساری فریادیں نوٹ کرکے اور اپنے منہ پر کورونا سے بچاؤ کا ماسک چڑھا کر جب وہ لوگ کلفٹن کنٹونمنٹ پہنچے تو ان سے کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔جب وہ لوگ مایوس ہوکر واپس آئے تب ڈی ایچ ے DHA کے ذمہ داروں نے سابق کھلاڑیوں اور چند نامور شخصیات کو اپنے دفتر بلایا۔ ان سے عزت اور محبت سے بات کی۔ ان کو یقین دلایا کہ اب انہیں اس قسم کی تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ جب وہ لوگ کامیاب ملاقات سے واپس لوٹ آئے تو ان کو معلوم ہوا کہ کلفٹن کنٹونمنٹ نے ان پر مظاہرہ کرنے کی وجہ سے مقدمہ داخل کردیا ہے۔ اب وہ لوگ سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے؟ وہ لوگ جو کل تک بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ کلفٹن یا ڈیفنس کے فلاں خیابان کے فلاں فیز میں رہتے ہیں،اب انہوں نے اپنے علاقوں کے نام کچھ اس طرح رکھے ہیں ان کو پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کراچی ڈیفنس کے نئے نام کچھ اس طرح وائرس ہو رہے ہیں:خیابان بدر اب خیابان گٹر ہے۔خیابان جامی اب خیابان پانی ہے۔خیابان راحت اب خیابان آفت ہے۔ڈیفنس کے لوگ سوشل میڈیا پر اپنے پڑوسیوں سے اس سلسلے میں دیگر موزوں نام تجویز کرنے کی اپیل بھی کر رہے ہیں۔ آج وزیر اعظم عمران خان کراچی کے وجود پر بارش کی وجہ سے لگے ہوئے زخم دیکھنے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ کیا وہ صرف گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر شہر کے معزز افراد اور بزنس کمیونٹی سے ملاقات کریں گے یا وہ شہر کے ان علاقوں کا فضائی ہی سہی مگر معائنہ کریں گے جو علاقے بارش میں ڈوب گئے۔ لوگوں کا ناقابل اندازہ نقصان ہوا ہے کیا ان لوگوں کے لیے وزیر اعظم کسی امدادی پیکیج کا اعلان کریں گے؟ وزیر اعظم کو اچھی طرح علم ہے کہ کراچی کتنا بڑا اور کس قدر نازک شہر ہے۔ اس شہر کی سب سے بڑے بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس شہر کے لوگ اپنے محلے اور اپنے گھر سے تو محبت کرتے ہیں مگر اس شہر سے محبت نہیں کرتے۔ اس شہر کا سب سے ظالم کلاس وہ قبضہ مافیا ہے جس نے شہر کے فطری بہاؤ کے سارے راستے چائنا کٹنگ اور مہنگے پراجیکٹ بنا کر بیچ دیے ہیں۔کیا ہم وزیر اعظم سے یہ امید رکھیں کہ وہ غریبوں کے لیے کوئی اعلان کریں یا نہ کریں مگر جو لوگ شہر کو بیچ کر امیر بنے ہیں؛ ان کا سیاسی اور لسانی وابستگیوں سے بلند احتساب ہو۔ کراچی کے وائیٹ کالر کرمنلز کو جب تک سزا نہیں ملے گی ؛ یہ شہر تب تک اصل معنی میں محفوظ نہیں ہو سکتا۔