امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یو کرائن پر روس کے ممکنہ حملے سے خوفزدہ ہیں اور انہوں نے یوکرائن میں اضافی فوجی سامان اور فوجی دستے بھیجے ہیں۔ اس کے برعکس روس کا دعویٰ ہے کہ اس کے اقدامات اس کے سلامتی کے مفادات کے لیے اہم ہیں اور اس کا یوکرائن پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ نیٹو نے یوکرائن کی سرحد پر روس کی مسلسل فوجی تعمیرات کو یوکرائن کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے جب کہ روس نیٹو پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کے اِس پس منظر میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ روس یوکرائن تنازعہ کی نوعیت کیا ہے؟ اور، یہ کیوں ہو رہا ہے؟ یوکرائن ایک سابق سوویت ملک ہے جو روس اور یورپی یونین دونوں کی سرحد سے متصل ہے۔ یوکرائن صدیوں تک روسی سلطنت کا حصہ رہا ہے اور 1991 میں سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اس نے آزادی حاصل کی۔ یوکرائن میں روسی نسل کی ایک بڑی آبادی ہے جن کے روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ تزویراتی طور پر، کریملن اسے روس کے پچھواڑے کے طور پر دیکھتا ہے۔ کریملن کی طرف جھکاؤ رکھنے والے یوکرائن کے صدر وکٹر یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو مسترد کر دیا اور ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا انتخاب کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں یوکرائن میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں وکٹر یانوکووچ کو 2014 میں صدر کے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا جِس کے ردعمل میں روس نے یوکرائن کے جنوب میں واقع جزیرہ نما کریمیا کو ضم کر لیا۔ 2014 میں کریمیا میں تقریباً 60 فیصد روسی نسل کی اکثریت تھی جب کہ یوکرینی اور کریمیائی تاتار جزیرہ نما کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد تھے۔ یوکرائن اور مغرب نے روس پر الزام لگایا کہ وہ روس نواز علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے فوج اور ہتھیار بھیج رہا ہے جنہوں نے مشرقی یوکرائن کے بڑی پٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ روس نے اس کی تردید کی اور کہا کہ علیحدگی پسندوں میں شامل ہونے والے رضاکار تھے۔ یوکرائن کو ہتھیار اور فوجی مدد فراہم کرنے اور مشترکہ فوجی مشقوں کے انعقاد پر روس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے سخت گیر مؤقف کے حامل یوکرائن کے رہنماؤں کو طاقت کے ذریعے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی ترغیب ملتی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش "رَیڈ لائن" ہے اور نیٹو ممالک کی طرف سے یوکرائن میں فوجی تربیتی مرکز کے قیام پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے نیٹو کے ارکان کو یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کے بغیر خطے میں فوجی قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ یوکرائن کا مسئلہ دراَصل سیاسی اَثرورسوخ کا مسئلہ ہے۔ روس نے دسمبر 2021 میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو سلامتی کے مطالبات کی فہرست پیش کی جس میں یوکرائن اور دیگر سابق سوویت ممالک کو نیٹو کی رکنیت دینے سے انکار کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس میں جارجیا کی رکنیت کے 2008 کے وعدے کو واپس لینا جبکہ وسطی اور مشرقی یورپ میں فوجیوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی کو روکنا شامل ہے۔ روس نے اپنی سرحدوں کے قریب نیٹو کی فوجی مشقوں کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی پہلے ہی اِن میں سے بہت سی شرائط کو "نان اسٹارٹر" قرار دے چکے ہیں۔ صدر پیوٹن نے مغرب پر زور دیا ہے کہ روس کو صرف زبانی یقین دہانیوں کی نہیں بلکہ "قانونی ضمانتوں" کی ضرورت ہوگی۔ جمعے کے روز فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ ایک فون کال میں، پیوٹن نے کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے روس کی اہم سکیورٹی تشویش " امریکہ اور اس کے اتحادی کس طرح سالمیت کے اصول پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں" پر توجہ نہیں دی۔ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع دراصل روس کے لیے ایک اہم تشویش ہے جو اسے اپنے اہم مفادات اور خطے میں اپنے اثرورسوخ کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ نیٹو ، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ، ایک فوجی اتحاد ہے جسے 1949 میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس سمیت 12 ممالک نے تشکیل دیا تھا۔ جس کی اہم شق یہ ہے کہ کسی ایک رکن ریاست کے خلاف مسلح حملے کی صورت میں سب اراکین ایک دوسرے کی مدد کے لیے آنے پر راضی ہیں۔ اس کا مقصد اصل میں دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں روسی توسیع کے خطرے کا مقابلہ کرنا تھا۔ 1955 میں سوویت روس نے مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک کا اپنا فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وارسا معاہدے کے متعدد سابقہ ممالک نیٹو کے رکن بن گئے ہیں۔ روس، مشرقی یورپی ممالک تک نیٹو کی توسیع کو اپنی جانب بڑھتا ہوا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس لیے نیٹو کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب روس یورپ کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جب کہ یوکرائن، نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کے تحت ٹرانزٹ فیس سے محروم رہے گا۔ اِن عوامل سمیت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مغرب یوکرائن کے اِیشو پر متحد نہیں ہے۔ اگرچہ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ یوکرائن پر یورپی رہنماؤں کے ساتھ "مکمل اتفاق" ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یوکرائن کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی ممالک خاص کر جرمنی اور فرانس مختلف اَپروچ رکھتے ہیں۔ جرمنی نے جنگی علاقوں میں مہلک ہتھیار نہ بھیجنے کی اپنی پالیسی کے مطابق، دفاعی ہتھیاروں کے لیے یوکرائن کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے اور طبی امداد بھیجنے کا عہد کیا ہے جبکہ فرانس کے صدر میکرون نے زور دیا ہے کہ روس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے یوکرائن کے تنازعہ کو حل کیا جائے اور کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔ اس صورت حال کے پیش نظر امید کی جانی چاہیے کہ عقل غالب آئے گی اور یورپی ممالک خود کو ایسی جنگ میں نہیں ڈالیں گے جس سے دوسروں کی نہیں بلکہ خود یورپ کی تباہی ہو گی۔