ایک طرف اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی طرف مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان مظاہروں میں شامل لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’کراچی پر قبضہ نامنظور‘‘ اور ’’وفاق والو کراچی سندھکاہے‘‘ اور دوسری طرف سوٹ اور ٹائی میں ملبوس سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے خوشگوار ماحول میں ملاقات کر رہے تھے۔ حالانکہ انہیں یہ موقع بھی حاصل تھا کہ مذکورہ ملاقات کے لیے وہ شانوں پر اجرک اور سر پر سندھی ٹوپی سجا کر جاتے مگر وہ جانتے تھے کہ اب اسلام آبادمیںسندھ کارڈنہیںچلتا۔ اس لیے انہوں نے نہ صرف وزیر اعظم سے ملاقات کی بلکہ رابطہ کمیٹی پر بھی اتفاق کیا۔ شیکسپیئر نے ٹھیک کہا ہے کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ مگر کبھی کبھی نام میں کچھ نہ کچھ موجود ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں ’’رابطہ کمیٹی‘‘ کا نام پڑھ کر وہ نائن زیرو کیوں یاد آتا جس پر اب تک تالا لٹک رہا ہے۔ ہر عروج کے مقدر میں زوال ہے۔ یہ بات صرف ایم کیو ایم پر پوری نہیں اترتی بلکہ اس ملک کی بہت بڑی پارٹیاں بھی اب اس بحران سے گذر رہی ہیں۔ جو گزرتے تھے داغ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں بینظیر کے بعد پیپلز پارٹی کو اقتدار تو ملا مگر آخری بار جیسا ملا۔ اگر پی پی قیادت کو یہ احساس ہوتا وہ لاہور میں اپنے پیر جما لیتی تو انہیں کراچی میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے سیاسی نسخے پر عزیر بلوچ کا تجربہ نہ کرنا پڑتا۔ مگر وہ کراچی کو اس طرح اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرتے رہے جس طرح لندن والے شخص نے کراچی پر قبضہ جمایا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے جھاڑو اٹھایا تھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کی مہم شروع کی اور پھر وہ جھاڑو کس طرح بندوق میں بدل گیا؟ کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ اور تو اور جن قوتوں نے ایم کیو ایم کو اس لیے پروان چڑھایا تھا کہ مارشل لاکے دور میں پیپلز پارٹی کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی کرسکیں وہ قوت بھی دیکھتی رہ گئی اور کراچی ایک اوپن ائیر مقتل بن گیا۔روشنیوں کا شہر اندھیروں میں کس طرح ڈوبا؟ یہ کہانی پھر صحیح ،مگر بقول ن م راشد ع حسن کوزہ گر اس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے کراچی کا بھی یہی حشر ہوا۔ پرخلوص اور سنجیدہ جماعتیں لوگوں کا دل جیتنے کے جتن کرتی ہیں۔ شہر تو شہر ہوتے ہیں۔ شہر دیہاتوں کی طرح نہیں ہوتے۔ جہاں بول بچن سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ شہر تو پریکٹیکل ہوتے ہیں۔ وہ کارکردگی دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے گریبان میں جھانکے اور بتائے کہ اس نے کراچی کو ایک مثالی شہر بنانے کے لیے کیا کیا ہے؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنما کراچی کے گرد لینڈ گریبنگ کرتے رہے ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے لینڈ گریبنگ کی سب سے بڑی مثال تو بلاول ہاؤس ہے۔ جب بلاول ہاؤس تعمیر ہوا تھا تو اس کا سائز کتنا تھا اور اب وہ اپنے محلے کے کتنے گھروں کا کھا گیا ہے؟ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کارکنان وہی کچھ کرتے ہیں جو قیادت کرتی ہے۔ راقم الحروف نے کہیں پڑھا ہے کہ ایک بار سکندر اعظم اپنی بہت بڑی فوج کے ساتھ وادی سندھ کے ایک علاقے سے گذر رہا تھا اور ا س نے حد نظر تک پھیلے ہوئے سرسوں کے پھول دیکھے۔ وہ اس کو اچھے لگے۔ اور اس نے جھک کر ایک پھول توڑا اور چلنے لگا۔ جب وہ کھیت کے آخر تک پہنچا تب اس نے پھر وہی خوبصورت منظر دیکھنے کے لیے اپنی گردن موڑی تو اسے پورے میدان میں ایک پھول بھی نظر نہ آیا۔ جسے اس نے ذرا اوپر دیکھا تو اسے ہر سپاہی کے ہاتھ میں سرسوں کا ایک پھول نظر آیا۔ جب قیادت اپنے گھر کو کشادہ کرنے کے لیے طاقت استعمال کرتی ہے تب وہ روایت پوری پارٹی میں چلتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی کہانی اس سے مختلف نہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کی بہت ساری آنکھیں ہوتی ہیں۔ شہر کے بہت سارے کان ہوتے ہیں۔ شہر غیر مشروط محبت کا قائل نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی نے اہلیان کراچی سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کو کراچی میں اپنے پیرا جمانے کا موقع نہیں ملا۔ پیپلز پارٹی اور اس پارٹی کے چاہنے والوں کو یہ بات ذرا کڑوی تو محسوس ہوگی مگر یہ ایک بے رحم حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کو موجودہ قیادت نے ایک دیہی پارٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ پارٹی پنجاب میں تو ماضی کا مزار بن گئی ہے مگر اب بھی اس پارٹی کا تھوڑا بہت اثر رسوخ ہے تو وہ پنجاب کے سرا ئیکی بیلٹ میں ہے۔ یہ پارٹی اسلام آباداور لاہور تو کیا اب پشاور میں بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی صرف دیہات میں باقی بچی ہے۔ اس پارٹی کا کلچر اب کسی طرح شہری نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے دل میں یہ احساس اب تک موجود ہے کہ انہوں نے اہلیان کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس لیے انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ کراچی کے لیے کچھ کرے مگر وفاقی حکومت کے سربراہ نے جب بھی پیپلز پارٹی سے کراچی کے بارے میں بات کی تب پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کی ڈھال اٹھا کر میدان میں نکل آئی۔ جب پیپلز پارٹی کو محسوس ہوا کہ اب وفاقی حکومت کے تیور تبدیل ہوگئے ہیں تو ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی نے سیاسی سمجھوتے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر ’’رابطہ کمیٹی‘‘ بنائی اور اس کو اپنی فتح قرار دیا۔ پیپلز پارٹی نے اس ایشو پر جس طرح سندھ کے ادیبوں اور شاعروں کو سندھی قو م پرستی کے بانس پر چڑھایا تھا؛ وہ اب تک وہاں اٹکے ہوئے ہیں اور نیچے سے پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت سے کراچی کے سلسلے میں سمجھوتہ کردیا۔ اس وقت سندھ کے قومپرست حلقے غم اور غصے کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی نے انہیں ایک بار پھر استعمال کیا اور چھوڑ دیا۔ اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے