متحدہ قومی موومنٹ نے جو عملاً پھر سے مہاجر قومی موومنٹ بن گئی ہے‘سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے تمام لوگوں کو برابر کا وفادار اور حق دار سمجھا جائے گا۔ یہ فقرہ کوٹ ان کوٹ ہے۔’’گا‘‘کے لفظ سے واضح نہیں ہوتا کہ انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ایسا ہو گا یا ایسا ہونے کی توقع ظاہر کی ہے۔ایم کیو ایم نے مہاجروں کے حقوق کی بات بھی کی ہے۔ حقوق کا مسئلہ تمام چھوٹی قوموں کے ہاں لگ بھگ ایک جیسا ہے۔پاکستان میں یہ کیفیت اپنے عروج پر ہے کہ چھوٹی قوموں کی ملک سے وفاداری پر کس حد تک اعتبار کرنا چاہیے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہمارے مقابلے میں دس گنا زیادہ اقوام رہتی ہیں‘وہاں ایسی کسی کیفیت کا سراغ نہیں ملتا۔تمام قوموں کی ملک سے وفاداری غیر مشکوک ہے۔اس ’’خلا‘‘کو مذہبی اقلیتوں سے رکھا جانے والا رویہ پر کرتا ہے۔وہاں ‘ خاص طور پر مسلمانوں کو غیر محب وطن سمجھا جاتا ہے۔اس تصور کی جڑیں تقسیم ہند میں پیوست ہیں لیکن ہمارے ہاں چھوٹی قوموں کے بارے میں اس تصور کی وجہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ کل ہی بلوچوں کے ایک رہنما نے بلوچوں کے ساتھ انصاف کی اپیل کی ہے جسے حسب سابق صدا بصحرا سمجھا جانا چاہیے۔ کوئی بھی بلوچ یا پٹھان رہنما حقوق کی بات کرتا ہے تو مین سٹریم میڈیا میں حملہ آوروں کی فوج ایک مقدس جنگ کے طور پر ان پر پل پڑتی ہے اور ان ’’غداروں‘‘ کا پورا شجرہ نصب گھڑ کر قوم کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔تین چھوٹی قوموں کو خارج کر دیا جائے تو باقی قوم صرف ’’پنجابی‘‘ بچتی ہے۔ادھر کچھ عرصے سے اس بڑی قوم کی وفاداری بھی مشکوک سمجھی جانے والی ہے۔ ٭٭٭٭٭ مہاجروں کے ساتھ رویہ کی کہانی دلچسپ ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو فرزند زمین ہونے کا شرف نہیں رکھتے۔یہ پاکستان کی خاطر اپنے وطن‘ گلی محلوں‘ کھیت کھلیانوں کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر مہاجرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔تب یہ بات انہیں معلوم نہیں تھی کہ مہاجرت کا یہ سفر اب ختم ہونے والا نہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مہاجر برابر کے پاکستانی تھے۔ان کی بھاری اکثریت سندھ میں مقیم ہوئی اور سندھیوں نے ان کے ساتھ ’’مواخات‘‘ کا حق ادا کر دیا۔لیکن پھر حالات بدل گئے۔ اس دوران مہاجر افسروں میں سے بعض کا رویہ مقامی آبادی کے ساتھ نو آبادیاتی تھا لیکن یہ افسر اکثریت میں نہیں تھے۔زیادہ تر افسروں کا رویہ معمول کا تھا ان امتیازی سوچ والے افسروں نے تلخی کے بیج بوئے لیکن یہ زیادہ بارآور نہیں ہو سکے۔ مہاجروں کے کم بختی تب آئی جب انہوں نے جمہوری سوچ کی وجہ سے 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادر ملت کی حمایت کی جس پر ریاست ان سے ناراض ہو گئی۔کراچی میں پہلے پٹھان مہاجر فسادات ایوب خاں نے کرائے اور اس کے بعد سے کراچی کے مہاجر نہ ختم ہونے والی سزا کے دائرے میں پھنس گئے۔ ریاست نے بھانپ لیا تھا کہ مہاجروں کی جمہوریت پسندی بڑے خطرے کا باعث ہو سکتی ہے چنانچہ ان کی تحقیر کے ایک ’’دانشورانہ‘‘ پلان پر عمل کا آغاز ہو گیا۔انہیں طرح طرح کے توہین آمیز خطاب دیے گئے۔ایک خطاب ’’بھیّا‘‘ ہونے کا تھا جو بھارت سے مستعار لیا گیا۔یو پی سی پی(اب ایم پی) کے جو لوگ مہاراشٹر اور بمبئی میں آتے تھے‘مقامی لوگوں میں ان سے تعصب رکھنے والوں نے انہیں بھیا کا خطاب دیا جو آج بھی وہاں مستعمل ہے۔لیکن دیگر خطاب ریجا دہندہ تھے اور خاصے توہین آمیز تھے۔ایک محاورہ بھی گھڑا گیا یعنی ’’اب کے مار‘‘ والا۔اس محاورے کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ بزدل لوگ ہیں ‘ مار کھاتے ہیں‘ اب کے مار کا نعرہ لگاتے ہیں اور پھر مار کھاتے ہیں۔تاریخ میں البتہ جو سچائی دفن ہے کہ یہ لوگ جن کو مہاجر یا بھیا کہا جاتا ہے‘برصغیر کی لڑاکا ترین قوم ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی انہی بھیا لوگوں نے لڑی تھی اور ایک بار تو انگریزوں کو شکست فاش دے کر دلی سمیت شمالی بھارت کے بڑے بڑے تمام شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔وہ تو بھلا ہو پنجاب کے جاگیرداروں اور گدی نشینوں کا جن کی کمک اور بحری جہازوں سے آنے والے جدید ترین ہتھیاروں نے انگریزوں کے قدم پھر سے جما دیے اور انگریزوں کو مسلمانوں ہی میں سے جعفر خاں نواب اور الٰہی بخش جیسے مخبر بھی مل گئے۔لڑاکا ترین قوم کو بہرحال ہم نے بزدل ترین قوم ثابت کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی۔ اصل کامیابی بھٹو کے دور میں ملی‘ پھر ضیاء الحق کے دو میں ذوالفقار علی بھٹو مہاجروں سے کوئی تعصب نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے ٹیلننڈ کزن ممتاز بھٹو مہاجروں اور پنجابیوں کو سندھ بدر کرنے کے حامی تھے۔انہوں نے لسانی بل منظور کرایا اور پھر مہاجروں پر گولی چلا سینکڑوں مارے گئے۔ یوں پہلی مرتبہ سندھ ’’دو قومی صوبہ‘‘ بن گیا مہاجر اور سندھی مواخات بڑی حد تک ختم اور نفرتوں کی دراڑ پلک جھپکنے میں پیدا ہوئی اور پھیلتی چلی گئی۔ وہ دور ختم ہوا‘ ضیاء الحق کی حکومت آئی جس کی منصوبہ بندی سندھ کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر’’متحارب صوبہ‘‘ بنانے کی تھی۔ (جاری)