کل ہم گھر سے دفتر کے لئے چلے تو معلوم ہوا کہ اسٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک بند ہے۔ ہم کراچی والوں کو اس کی عادت سی ہو گئی ہے۔ کوئی سیاسی جلسہ ہوتا ہے تو سڑک بند ہوتی ہے۔ کوئی جلوس نکلتا ہے تو سڑک ٹریفک کے لئے روک دی جاتی ہے کوئی سیاسی احتجاج ماضی میں ہوتا تھا تو سڑک پر ٹائر جلا کر گاڑیوں کا آنا جانا معطل کر دیا جاتا تھا۔ کراچی کے شہری ان باتوں کے عادی ہیں۔ اذیتیں بھگتنا‘ تکلیف اٹھانا ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ برا نہیں مانتے۔ ایک راستہ بند ہو تو وہ کوئی متبادل راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ہم نے ایک موٹر سائیکل سوار سے پوچھا بھائی آگے کا راستہ بند کیوں ہے۔ اس بھلے مانس نے ہمیں یوں دیکھا جیسے ہماری بے خبری پہ اس کو تعجب ہو۔ بولا جناب! آپ کو نہیں پتا اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہے۔ پورا شہر میچ دیکھنے کے لئے ٹوٹا پڑا ہے۔ تب ہمیں اپنی لاعلمی پر اک ذرا شرمندگی بھی ہوئی کہ افسوس شہر میں معمول کی زندگی واپس آ گئی اور ہمیں یاد بھی نہ رہا۔ زیادہ پرانی بات بھی نہیں کہ شہر کی حالت دہشت گردی کے واقعات سے ایسی ہو گئی تھی کہ کسی بھی شریف ملک کی کرکٹ ٹیم یہاں میچ کھیلنے آنے کو تیار ہی نہ ہوتی تھی۔ اسٹیڈیم ڈھنڈارپڑا رہتا تھا۔ سڑکوں پہ آئے دن زندگی اور موت کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہتی تھی۔ لندن سے ایک کال شہر کو ویران کر دیتی تھی۔ جس روز ہڑتال ہوتی اس سے پہلے ہی کو شام ڈھیروں گاڑیاں نذر آتش کر دی جاتیں۔ فائرنگ کر کے بازاروں اور دکانوں کو سنسان کر دیا جاتا تھا۔ اب خدا خدا کر کے یہ وقت آیا ہے کہ نہ ہڑتال نہ بوری میں بند لاشیں‘ نہ ٹیلی فونک خطاب اور نہ وہ تصویریں جو سارے شہر کے کھمبوں پہ لٹکی اہلیان شہر کو گھورتی رہتی تھیں۔ دہشت کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ اس کا مقصد فقط خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے لیکن شاباش ہے کراچی والوں پر کیسے سخت اور عذابناک شب و روز تھے مگر اس کے بازار ان برے حالوں میں بھی بارونق رہے۔ہوٹلوں اور باربی کیو ریستورانوں میں خوش خوراکوں کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔ کراچی والے کبھی مایوس و ملول نہیں ہوئے۔ کراچی جس نے صدر ایوب کی آمریت کے مقابلے میں قائد اعظم کی ہمشیرہ کی جمہوریت کا ساتھ دیا۔ کراچی جو بھٹو کی مخالفت میں پیش پیش رہا۔ جس نے جمہوریت کی بحالی میں پورے ملک کی قیادت کی اور اس جمہوریت پسندی کی ہر دور میں سزا بھی بھگتی۔ یہی کراچی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق دہشت پسندوں کے چنگل میں پھنس کر اپنے سارے اوصاف‘ ساری خوبیاں کھو بیٹھا۔ اس نے ’’ٹی وی بیچو‘ اسلحہ خریدو‘‘ کا نعرہ سنا اور یہ نہ سمجھ سکا کہ کراچی والوں کو کس طرف ہنکایا جا رہا ہے۔ وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ یہ اسلحے آخر آخر کو شہر عروس البلاد کو مقتل گاہ بنا دیں گے جس پر ان ہی کے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے گا اور موت سے بچ گئے تو عمر بھر کی معذوری تو مقدر ہے ہی۔ وہ نوجوان جو محلوں کے نکڑوں پر جمع ہو کر گپ بازی کیا کرتے تھے‘ ان سے جرائم کرا کے انہیں قاتل بنا کے مقدمات بھگتنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ ہزار ہا نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہو گیا‘ تعلیمی اداروں سے تعلیم ختم ہو گئی‘ تہذیب و شائستگی جو کراچی کی پہچان تھی‘ اس کی جگہ دہشت پسندی اور غنڈہ گردی نے لے لی۔ کراچی تعلیم و ترقی کے میدان میں برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہوئی کہ جن نعروں نے پارٹی کو ہر دلعزیزی عطا کی۔ پارٹی اسمبلیوں میں پہنچ کر ان نعروں کو یکسر فراموش کر گئی۔ محصورین ڈھاکہ کو واپس لانے کا پھر کبھی تذکرہ نہ ہوا۔ سرکاری ملازمتوں میں دیہی اور شہری متعصبانہ تفریق کے خاتمہ کا پھر کوئی ذکر خیر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ پارٹی ’’متحدہ‘‘ ہو گئی لیکن لچھن پھر بھی وہی رہے۔ اس شہر پہ یہ عذاب ڈھائی تین دہائیوں تک رہا۔ خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ سوچنے کے انداز اور ذہنیت بدل ڈالی گئی۔ محبت کی جگہ نفرت اور اعتماد و یقین کی جگہ شکوک و شبہات اور بدگمانی نے لے لی۔ ہم جیسے لکھنے والے ڈرتے ڈرتے حق کی آواز بلند کرتے بھی تو اس امید پر کہ خدا ہماری حفاظت کرنے والا ہے۔ جس بات کو سمجھنے سے عقل قاصر رہی وہ یہ تھی کہ دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع کیوں دیا گیا؟ اور اس درجہ کہ ایک سیاسی حکومت کے آپریشن میں جن پولیس افسروں نے حصہ لیا انہیں چن چن کر گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور قانون بے بسی سے اپنی ہی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ان بیس تیس برسوں میںاس شہر پہ جو کچھ بیتی افسوس کہ تاحال اس کی داستان کو قلم بند نہیں کیا گیا۔ ریاست ایک بڑی طاقت ہوتی ہے‘ اس طاقت کو لکھوکھا انسانوں کی حفاظت کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔یہ اور ایسے کئی سوالات ہیں جن کو اس داستان کا حصہ بننا چاہیے۔ آج کراچی پرسکون ہے۔ اخبارات اب بوری میں بند لاشوں اور مقتول بیٹوں کی روتی بین کرتی مائوں کی کہانیوں کو چھاپنے سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ مشہور زمانہ نائن زیرو بھی اب برسر اقتدار پارٹیوں کے عہدے داروں اور سیاست دانوں کے طواف سے پاک صاف ہے۔ مکہ چوک پر نصب شدہ مکہ ہٹا کر اس کی جگہ شہید ملت کی تصویر آویزاں کر دی گئی ہے۔ آج شہر میں جا بجا اسی پارٹی کی طرف سے پاک افواج کو خراج تحسین پیش کرنے والے بینر لہرا رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان بینروں کا رنگ سیاہ ہے۔ کراچی جن خون آشام شب و روز سے گزرا ہے ان کی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کراچی والوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ مگر ان کے تحت الشعور اور لاشعور میں وہ سارے دکھ،سارے خوف و ہراس محفوظ ہیں۔ انہوں نے اچھے دنوں کے جو خواب دیکھے تھے وہ بہت ڈرائونے نکلے۔ ان کی پرسکون نیندیں پریشان ثابت ہوئیں اور بر خود غلط قیادت پہ ان کے اندھے اعتماد نے انہیں ایسے نقصانات اور سانحات سے دوچار کیا جس کا ازالہ اب کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنے لیے اب برسر اقتدار جماعت کو چنا ہے اور اس سے ہی اپنی امیدیں وابستہ کی ہیں۔ خدا وند تعالیٰ نئے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو توفیق دے کہ وہ اس شہر کے کچھ بہتے ہوئے اور کچھ خشک ہو جانے والے آنسوئوں کو پونچھیں۔ اس شہر میں جہاں تمام صوبوں کے لوگ کثیر آبادی کی شکل میں بستے ہیں۔ جو مسائل اور ناانصافیاں ہیں‘ انہیں دور کریں۔ حقیقت میں یہ شہر ایک اچھی ایماندار‘ مخلص اور ہمدرد قیادت کی تلاش میں رہا ہے۔ جن قیادتوں پر اس نے اعتماد کیا وہ توقعات پر پوری نہ اتریں بلکہ ان کی ملک گیر سوچ کو ایک اندھے کنوئیں میں بند کر دیا ہے اب اگر نئی قیادت نے بھی انہیں مایوس کیا تو اس سے بڑی بدنصیبی کوئی اور نہ ہو گی۔ کراچی کا سٹیڈیم ان دنوں تماشائیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں کے نام اور عنوان سے کھیلے جانے والے میچ امید ہے اس تاثر کو دھو دیں گے کہ یہ شہر صرف اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے۔ ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی کا یہ شہر اپنے طول و عرض میں جیسا وسیع ہے ویسے ہی اس شہر کا قلب بھی کشادہ ہے۔ بس اسے محبت و مروت کے سلوک کی بھوک ہے یہ بھوک مٹا دیجیے۔ یہ شہر سب کا ہے اور سب کا رہے گا۔