کراچی کے عوام نے تنگ آ کر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے دیا ۔ انہیں لگا کہ سالہا سال سے ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی ان کے مسائل کا حل نہیں ڈھونڈ سکی، کسی نئی جماعت کو آزمایا جائے ۔ تبدیلی کے نعروں کے جواب میں کراچی نے پاکستان تحریک انصاف کے چودہ امیدواروں کومنتخب کر کے قومی اسمبلی جبکہ بائیس کو ووٹ دے کر صوبائی اسمبلی میں بھیجا۔ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کے نام بھی پہلے لوگوں نے نہ سنے تھے ، چار چھے کے علاوہ تو میں بھی کسی سے واقف نہ تھا، لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ، بلے کو دیکھ کر مہر لگائی ، عمران خان سے امیدیں باندھیں، انہیں لگا کہ عمران خان ان کے دیرینہ مسائل کا حل نکالیں گے۔ اس بار جب میں کراچی گیا تو مائیک لے کر لوگوں کے پاس مختلف بازاروں اور گلی محلوں میں چلا گیا، ان سے پوچھا تبدیلی کی آ س لیے تحریک انصاف کے جن 36 امیدواروں کو اسمبلیوں میں بھیجا وہ کس حد تک امیدوں پرپورا اترے۔ بیشتر اراکین صوبائی و قومی اسمبلی سے لوگ سخت ناراض نظر آئے اور کہنے لگے کہ ووٹ لے کر ایسے گئے کہ لوٹ کر شکل نہ دکھائی۔میںنے کہا سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ، اٹھارویں ترمیم کے بعد آپ کے مسائل حل کرنا ، سٹرک بنانا، پانی دینا، سیوریج کا نظام مہیا کرنا پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے مگر لوگوں نے تُنک کر جواب دیا تو پھر سڑکیں بنانے کے وعدے پر ووٹ کیوں لیے تھے، کام نہیں کر سکتے تو صوبائی حکومت پر دبائو تو ڈال سکتے ہیں مگر وہ تو یوں غائب ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ لوگوں کی بات سن کے مجھے اندازہ ہوا کہ غرض مند دیوانہ ہوتا ہے انہیں اپنے مسئلے کا حل چاہیے ہوتا ہے ۔انہیں اٹھارویں ترمیم سے غرض ہے نہ وفاقی حکومت کی مجبوریوں سے ، انہیں ایم کیوایم اور تحریک انصاف کی لڑائی سے غرض ہے نہ صلح اور مذاکرات سے ۔انہیں وسیم اختر کو نہ ملنے والے اختیارات سے غرض ہے نہ پیپلز پارٹی کی طرف سے فنڈز روک لینے کے الزامات سے ۔ لوگوں کو تو اپنے مسائل کا حل چاہیے وہ بھی اس سے جسے انہوں نے ووٹ دیے ہیں۔ سیدھی اور صاف سی بات ہے ، بلدیہ ٹائون سے ووٹ لے کر غائب ہو جانے والے فیصل وائوڈا جب اگلے انتخابات میں وہاں جائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ میں پانچ سال اس لیے غائب رہا کہ میرے پاس تو سندھ کی حکومت تھی نہ اختیار، اس لیے میں اپنے وعدے پورے نہ کرسکا ، تو یقینا لوگ ان کی بات سے قائل ہو کرانہیں دوبارہ ووٹ دینے سے انکار کر دیں گے ۔ پاکستان میں تو سیاست ایسے ہی ہوتی ہے ۔ انہیں مسائل پر بات کرنے کے لیے میں تحریک انصاف کے ایم این اے آفتاب جہانگیر کے پاس گیاوہ کراچی پریس کلب کے باہر اپنے حلقے کے عوام کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں موجود لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے وہاں آئے تھے ۔ آفتاب جہانگیر شکایت کرنے لگے کہ ان کے حلقے میں قبضہ مافیا نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور تنگ آکر وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ، میں نے پوچھا حیرت ہے آپ حکومت ہیں اور اقدامات اٹھانے کی بجائے احتجاج کر رہے ہیں ، انہوں نے جواب دیا میرے پاس اپنے لوگوں کے مسائل حل کرانے کا کوئی اختیار نہیں ۔ دورہ کراچی کے دوران ان منصوبوں کو دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا جو براہ راست وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جہاں حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا۔انہی میں سے ایک گرین لائن بس منصوبہ تھاجو 2016 میں شروع ہوا اور اسے 2017 میں مکمل ہونا تھالیکن2020 کی پہلی سہ ماہی گزر جانے تک بھی یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا۔سڑک پہ بس کب دوڑے گی اور عوام کو دھول مٹی سے کب نجات ملے گی ، کچھ معلوم نہیں۔ کراچی سرکلر منصوبہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے مکمل ہونے کے دور دور تک امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ بیشتر جگہوں سے پٹری غائب ہے اور جہاں ہے بھی وہاں زمین میں دھنس چکی ہے ۔ اکثر جگہوں پہ پٹری کے اوپر مکانات یا دکانیں بن چکی ہیںاور کچھ جگہوں پر تو کثیر المنزلہ عمارتیں زیر تعمیر ہیں۔ مرکزی شاہراہ پر واقع ایک ایسی جگہ کو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا جہاں تین سال پہلے ایک ایک کروڑ روپے کے عوض اپارٹمٹس بُک کیے جا چکے ہیں اور اب تعمیرات ہو رہی تھیں کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد انہیں گرانے کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔ان اپارٹمنٹس کی تشہیر کے دوران معروف فلمی ہیرو کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور ٹی وی پر اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کیے گئے تھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکلر ریلوے کی زمین پر باقاعدہ اشتہارات کے ذریعے فلیٹس بیچ بھی دیے گئے ، انہیں اجازت نامے مل بھی گئے اور آدھی سے زیادہ عمارت تعمیر ہو بھی گئیں اور اگر سپریم کورٹ حرکت میں نہ آتی تو یہی سرکار اس بلڈنگ کو بجلی اور پانی کے کنکشن بھی دیتی اور گیس بھی فراہم کرتی ۔ گویا سب کچھ نہایت منصوبہ بندی سے صوبائی حکومت کی چھتر چھایہ میں ہوتا ہے ،کوئی پوچھنے والا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ کبھی بنے گا ہی نہیں ۔صرف سرکلر ریلوے کا منصوبہ ہی نہیں بلکہ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سڑکیں کبھی ٹھیک ہوں گی ہی نہیں، کچرا کبھی اٹھے گا ہی نہیں، سیوریج کا نظام کوئی ٹھیک کر ے گا ہی نہیں اور انہیں ان کے گھروں پر پانی کی دستیابی ہو گی ہی نہیں۔لوگوں کی اس حد تک پہنچی ہوئی مایوسی یا عدم اعتمادی کی وجہ ان کے تجربات اور سالہا سال کی حکومتی بد عہدی کے مشاہدات ہیں جو انہیں یہ رائے قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تحریک انصاف 36 سیٹیں لے کر نازک موڑ پر کھڑی ہے ، وقت تیزی سے گزر رہا ہے ، 2023 زیادہ دور نہیں ، لوگ ناراض ہیںاور حکومت کے پاس ابھی تک دلاسوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔