کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کتنی خوبصورت ہے ۔مکران کوسٹل ہائی وے کی ایک طرف شور مچاتا نیلا سمندر،دوسری جانب خاموش کھڑے پہاڑ اور پہاڑوں کے بیچ کہیں صدیوں سے ایستادہ ’’پرنسس آف ہوپ‘‘،عقل جسے دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے، کیا صدیوں پہلے کسی نے پہاڑ کو تراش کر یہ شہزادی تخلیق کی تھی یا پھر قدرت نے پہاڑ کو شہزادی کی شکل میں بنایا،یہ کسی کو معلوم نہیں۔ انجلینا جولی نے اسے پرنسس آف ہوپ کا نام دیا۔ صرف یہی نہیں ہنگول میں پورے کا پورا پہاڑی سلسلہ ہی ایسا ہے جیسے ہزاروں مصور کسی زمانے میں ان پہاڑوں کو جگہ جگہ سے تراش کر مختلف شکلیں دینے کے کام پر مقرر ہوں ۔ کہیں کسی پہاڑ پر کوئی شیر بیٹھا گہری سوچ میں گم دکھائی دیتا ہے تو کہیں بدھا عبادت میں مصروف نظر آتا ہے ، کہیں کسی پہاڑ کا کوئی حصہ مورتیوں کی شکل میں ڈھلا ہوا ہے اور کہیں پہاڑ پر کسی تہذیب کے آثار کنندہ دکھائی دیتے ہیں۔ حیرت ہے سیاح ادھر کا رخ کیوں نہیں کرتے ۔کسی زمانے میں ہو سکتا ہے سیکیورٹی کے مسائل کے باعث رجحان میں کمی ہو مگر اب تو یہ پورا راستہ پاکستان کی کسی بھی دوسری شاہراہ کی طرح محفوظ ہے ۔اگرچہ سہولیات کی ابھی کمی ہے مگر کراچی سے تو اب بہت لوگ یہ جادوائی نظارے دیکھنے آتے ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگ اس سیاحتی مقام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔جنہیں تجسس ہے ان کے لیے لکھے دیتا ہوں کہ کراچی سے جڑے ہوئے حب شہر کو بائی پاس کرتے ہوئے آپ جونہی کوسٹل ہائی وے پر آتے ہیں، قدرت کے حسین نظارے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ یہیں چھ ہزار ایک سو مربع کلو میٹرپر پھیلا ہنگول نیشنل پارک بھی ہے۔اسی نیشنل پارک کے بیچوں بیچ دریائے ہنگول بہتا ہے۔دریائے ہنگول میں مگر مچھ کثرت سے پائے جاتے ہیں اور یہاں سے گزرتے ہوئے دو چار تو کنارے پر دکھائی دے ہی جاتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ دریا کے کنارے گاڑی سے اترنے سے گریز کیا جائے تاکہ حفاظت یقینی رہے۔ کوسٹل ہائی وے کو کنڈ ملیرکے مقام سے چھوڑ کر شمال کی جانب جائیں تو بیس منٹ کی ڈرائیو آپ کو پہاڑوں کے بیچوں بیچ واقع ہنگلاج ماتا کے تاریخی مندر لے جائے گی۔ یہ مقام بھی سحر زدہ کر دینے والا ہے۔اس کے بارے میں ہندو تاریخ کا دعویٰ ہے کہ یہ 32 لاکھ سال پرانا مندر ہے ۔یہاں بہار کے موسم میں لگنے والے میلے میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زیادہ یاتری شرکت کرتے ہیں ۔ عام دنوں میں آپ اس جگہ جائیں تو آپ کاجی چاہے گا کہ پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر آپ یہاں کی ساری خاموشی اور سکون اپنے اندر اتار لیں ۔ مکران کوسٹل ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خوبصورت سمندر آپ کو تین سے چارمرتبہ رکنے پر مجبور نہ کرے۔ پہلا مقام تو ’’کُنڈ ملیر ‘‘ ہے۔ یہ کراچی سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک طرف سمندر کوسٹل ہائی وے کے بہت قریب آ جاتا ہے اور دوسری جانب پہاڑ سڑک کے کنارے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سمندر کا ساحل اپنی تمام تر رعنائیوں اور رعب و دبدبے کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہتاہے۔ یہاں سے چلیں تو طلسماتی پہاڑ آپ کو گھیرے رکھتے ہیں۔طلسماتی پہاڑی سلسلے کو دیکھتے دیکھتے تھک جانے سے پہلے ہی ایک اور ساحل آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے جسے ’’گولڈن بیچ‘‘ کہتے ہیں۔یوں تو دل چاہتا ہے یہاں رات بھر قیام کیا جائے لیکن پھر خیال آتا ہے کیمپنگ کے لیے اسی پٹی کا ایک اور ساحل زیادہ مشہور ہے اور وہ مزید ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے جسے سب ’’اورماڑہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔کراچی سے بہت سیاح اورماڑہ آتے ہیں،یہاں کیمپ لگاتے ہیں، کوکنگ کرتے ہیں اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اٹھاتے ہیں ۔ اورماڑہ سے گوادرکے لیے نکلتے ہی منظر تبدیل ہو جاتا ہے،پہاڑی سلسلے کی جگہ تاحد نظر صحرا دکھائی دینے لگتا ہے۔دونوں جانب وسیع و عریض صحرا کے بیچوں بیچ دوڑتی کوسٹل ہائی وے دلفریب نظارہ پیش کرتی ہے۔اکثر جگہ گرد کا طوفان گاڑی کی رفتار آہستہ کر دیتا ہے مگر اس سے صحرا کے رعب داب میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔اورماڑہ سے نکلنے کے تین گھنٹے بعد آپ گوادر میں قدم رکھتے ہیں جس کی شکل ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔میں دو سال پہلے یہاں گیا تھا۔آج گوادر کی شکل پہلے سے زیادہ بہتر ہے بڑی بڑی سوسائیٹیز بن رہی ہے ، عمدہ اور جدید تعمیرات ہو رہی ہے۔ پہاڑ کے دامن میں خوبصورت کرکٹ سٹیڈیم بنایا گیا ہے جہاں مقامی نوجوان پریکٹس کرتے دکھائی دیے۔لیکن گوادر میں رہنے والوں کے کچھ شکوے بھی ہیں ۔ ان کا سب سے بڑا شکوہ معاشی سرگرمیوں کا ماند پڑ جانا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ باڈر کو سیل کر کے سمگلنگ کا راستہ بند کر دیا گیا ہے ۔ جس سے بلوچستان زیادہ محفوظ تو ہوا ہے مگر لوگوں کا کاروبار متاثر ہوا ہے ۔ اس شکوے میں کمی تب ہو گی جب لوگوں کو متبادل روزگار ملنے لگے گا۔ قرب و جوار میں انڈسٹری لگے گی، پورٹ آباد ہو گی، کنٹینرز کثرت سے یہاں آنے لگیں گے،گوادر میں چہل پہل ہو گی اور اس رونق کے ساتھ خوشحالی آئے گی۔ یہ سب ہونے میں ابھی دس سال لگیں گے لیکن دس سال کے بعد نہ صرف گوادر میں رہنے والوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا بلکہ پاکستان بھر میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ سب ہونے میں تو ابھی کچھ وقت لگے گا لیکن تب تک گوادر کی جانب سیاحت کو فروغ دے کر بہتر معاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ کراچی سے گوادر تک کا راستہ اگرچہ مکمل طور پر محفوظ ہے،اتنا محفوظ کہ کراچی سے فیملیز بھی یہاں کا سفر کرنے میں خوف محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن اصل مسئلہ راستے میں مناسب سہولیات کا موجود نہ ہونا ہے۔اگر مناسب قیام گاہیں تعمیر کر دی جائیں،واش رومز کی سہولت بہتر انداز میں میسر ہوںاور گاڑی کے لیے معیاری ایندھن دستیاب ہو تو بلوچستان میں سیاحت کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے ۔