معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کراچی میں خوفناک حملے میں بال بال محفوظ رہے۔ مفتی تقی عثمانی کے قافلے پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ نیپا چورنگی پر فیملی کے ہمراہ جا رہے تھے۔ حملے میں دو گارڈ جاں بحق جبکہ ڈرائیور سمیت دو افراد زخمی ہو گئے۔ کراچی پاکستان کا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی مرکز بھی ہے۔ اس لیے ملک اور سماج دشمن عناصر کی میلی آنکھیں ہمیشہ اس شہر کے امن کو خراب کرنے کی تاک میں لگی رہتی ہیں۔ طویل عرصہ تک یہ شہر بدامنی کا شکار رہا مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور کاوشوں کی بدولت اس شہر کی فضا امن و امان کا نظارہ پیش کرنے لگی۔ کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں اور اسی پر امن ماحول میں پی ایس ایل کا آخری مرحلہ بھی چند روز قبل بخیروعافیت پایہ تکمیل تک پہنچا۔ کراچی کی پرسکون اور پرامن فضا دشمن کو ایک آنکھ نہ بھائی اور ایک بار پھر کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ خوش قسمتی سے مفتی تقی عثمانی تو قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے مگر محافظوں کی قیمتی جان کا نذرانہ دینا پڑا۔ آئی جی سندھ کے مطابق کراچی میں پانچ سو سے زائد خطرے کے انتباہ موجود ہیں۔ سرحدوں پر ناکامی کے بعد دشمن ملک کے اندر حالات خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور کراچی کے حالیہ واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر موجود ملک دشمن عناصر کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کر کے ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کی جائے۔ ملک میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے امن و امان کا قیام انتہائی ضروری ہے۔